کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 61
کرکے خود مدرسہ رحمانیہ آجاتے اور ان کے ساتھ ایک صاحب شیخ محمد تیناوری بھی ہوتے۔ یہ مدرسے کے قریب ہی ایک عالی شان عمارت میں رہایش پذیر تھے۔ فجر کے وقت جب شیخ عطاء الرحمن مدرسہ رحمانیہ آتے تو پچیس کے قریب کمروں میں رہایش پذیر تمام طلبا کو خود ہر دروازے پر دستک دے کر نمازِ فجر کے لیے بیدار کرتے، پھر خود ان کے ساتھ مل کر نماز باجماعت ادا کرتے اور پھر مدرسہ رحمانیہ کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ بیٹھتے۔ بڑے سخی، فیاض اور دریا دل انسان تھے۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اخلاق کے بھی بہت اچھے تھے۔ طلبا کے ساتھ بہت زیادہ شفقت و محبت اور الفت کا برتاؤ کرتے تھے۔ انھیں جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ اگر کوئی طالب علم کسی موقع پر غلط بیانی سے کام لیتا یا مدرسے کے نظام کی خلاف ورزی کرتا تو فوراً مدرسے سے خارج کر دیتے۔ بعض اوقات مدرسہ رحمانیہ کے طلبا کو پکنک منانے کے لیے نہر کے کنارے لے جاتے اور بذاتِ خود خاص اہتمام کے ساتھ اشیاے خور و نوش اور پھل مٹھائی کے ذریعے سے ان کی تواضع کرتے۔ طلبا پکنک منانے میں مصروف ہوتے اور یہ انھیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے۔‘‘[1] 4۔ محترم فاروق اعظمی صاحب شیخ الحدیث علامہ عبید اﷲ رحمانی اور رسالہ محدث دہلی کے حوالے سے شیخ عطاء الرحمن صاحب کے معمولات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’شیخ عطاء الرحمن صاحب (مہتمم ادارہ) کا یہ روز مرہ کا معمول تھا کہ صبح فجر سے قبل روزانہ پھاٹک حبش خاں سے مدرسہ رحمانیہ تک پیدل چل کر آتے اور ہاتھ میں ڈھیر سی ریزگاری لیتے آتے، جسے فٹ پاتھ کے
[1] ماہنامہ ’’صراط مستقیم‘ برمنگھم (نومبر، دسمبر ۱۹۹۸ء، ص: ۱۴)