کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 60
کے بعد روٹی کے ٹکڑوں اور جوٹھے سالن کے برتنوں کو اپنے آگے رکھ لیتے اور نہایت بے تکلفی کے ساتھ کھانے لگتے۔ اﷲ اﷲ کون ہے جو کروڑپتی ہونے کے باوجود ان اخلاق عالیہ سے مزین ہو؟!‘‘ [1] مولانانذیر احمد رحمانی ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : ’’بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سالانہ امتحان کے بعد شعبان میں جب ہم لوگ گھروں کو جانے لگے ہیں تو مرحوم (شیخ عطاء الرحمن) نے ڈبوں میں بند بصرہ یا مدینہ منورہ کی بہترین کھجوریں ہم کو دیں ، تاکہ ہم رمضان میں روزہ انہی تر کھجوروں سے افطار کریں ۔‘‘[2] 3۔ مولانا عبد الغفار حسن رحمانی بیان کرتے ہیں : ’’....شیخ عبد الرحمن مدرسے کی بنیاد رکھنے کے بعد صرف ایک سال تک زندہ رہے، پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی شیخ عطاء الرحمن مدرسے کے کفیل مقرر ہوئے۔ یہ بڑی عمر کے انتہائی دین دار اور متشرع انسان تھے۔ تمام لوگ ان کو بڑی عزت اور قدر واحترام کی نگاہ سے دیکھتے، حتی کہ ریڑھی اور مزدوری کرنے والے مزدوروں کی بھی کوشش ہوتی کہ ہر صبح شیخ عطاء الرحمن کی مزدوری سے اپنے کاروبار کا آغاز کریں ، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ان پر خیر وبرکت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، پھر سارا دن خوب منافع ہوتا ہے۔ ’’شیخ عطاء الرحمن اگرچہ بہ ذاتِ خود عالمِ دین نہ تھے، مگر انھیں علم اور علما سے گہرا قلبی تعلق تھا۔ عام طور پر روزانہ اپنے کار وبار کو بچوں کے سپرد
[1] رسالہ ’’محدث‘‘ دہلی (نومبر ۱۹۳۸ء، ص: ۱۷۔ ۲۰ باختصار) [2] ایضا (ص: ۱۸)