کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 59
ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے اور اذان [اور سنت] سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق دا ہنی کروٹ پر لیٹ جاتے۔ جب دوسرے نمازی بھی اپنی اپنی سنتیں پڑھ چکتے تو فرض کی اقامت ہوتی اور سنت کے مطابق لمبی لمبی قراء ت کے ساتھ فرض ادا کرنے میں شریک رہتے۔ نماز کے بعد تھوڑی دیر مدرسے میں بیٹھتے، رات بھر کی خیریت معلوم کرتے اور پھر پیدل ہی گھر واپس تشریف لے جاتے۔ گیارہ بجے کے قریب پھر اپنی خاص موٹر سے مدرسے آتے اور اب شام تک یہیں رہتے، ظہر اور عصر کی نماز بھی ہمیشہ جماعت سے مدرسے ہی میں ادا کرتے۔۔۔
’’آپ کے اخلاق اتنے بلند اور وسیع تھے کہ دشمن بھی اس سے مسحور تھے۔ جس کسی نے ایک مرتبہ بھی آپ سے ملاقات کرلی، وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ آپ کی اس بزرگانہ اخلاقی برتری کا نتیجہ تھا کہ آپ گیارہ بجے دن سے شام چار بجے تک غریب مسکین طالب علموں میں رہتے۔ نہایت خوشی اور دلی مسرت کے ساتھ اپنے ایام گزارتے۔۔۔ ہر طالب علم کی خیریت معلوم کرتے رہتے۔ اگر خدانخواستہ کوئی بیمار ہو جاتا تو خود جاکر اس کی بیمار پرسی کرتے۔ ڈاکٹر و حکیم کو ہدایتیں کرتے۔ بسا اوقات اپنے ہاتھ سے دوا پکا کر اور مل چھان کر لڑکوں کو پلائی ہے۔
’’مدرسے میں کھانا تیار ہوتا تھا، اس کی نگرانی رکھتے تھے۔ کبھی کبھی خود اچانک منگا کر کھا لیا کرتے، تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ کیسا پکتا ہے؟ کبھی کسی کے ساتھ تکبر اور غرور کی باتیں نہیں کیں ۔ علما اور طلبا کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اپنی عزت سمجھتے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ اگر کبھی ہمارے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہوسکے، بلکہ کھلانے ہی میں رہ گئے تو کھانے