کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 58
تھے۔ گو آپ کے پاس اﷲ کی دی ہوئی بے حساب دولت اور سامانِ تعیش کی فراوانی تھی، لیکن باوجود اس کے آپ پر اﷲ کا خوف اور اس کا تقوی غالب تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ رات کے آخری حصے میں (تقریبا ڈھائی تین بجے) سردی ہو یا گرمی، برسات ہو یا جاڑا، آرام کی نیند چھوڑ کر بستر سے اٹھ کھڑے ہوتے اور اس خیال سے کہ کسی نوکر یا خادم کو اس وقت جگانے سے اس کو تکلیف ہوگی، خود ہی لوٹے میں پانی بھرتے اور اگر ضرورت ہوتی تو خود ہی آگ جلا کر اس کو گرم بھی کرلیتے اور وضو کے بعد گھر کے ایک گوشے میں مصلے پر کھڑے ہو کر اپنے رب سے راز و نیاز (نمازِ تہجد) شروع کر دیتے۔
’’دیر تک حلاوتِ ایمان کا یہی لطف حاصل کرتے رہتے، یہاں تک کہ جب صبح صادق قریب ہوتی تو نمازِ فجر مدرسے کے علما اور طلبا کے ساتھ ادا کرنے کے لیے اکیلے گھر سے نکل پڑتے اور تقریبا ڈیڑھ میل پیدل چل کر مدرسے پہنچتے۔ یہاں سب کو عموما سوتا ہوا پاتے۔ سب کی چارپائیوں کے پاس جاکر نہایت شفقت و مروت سے ایک ایک کو جگاتے۔ گرمیوں میں بہت سے لڑکے مدرسے کی بلند اور وسیع چھت پر سونے کے لیے اپنی چارپائیاں لے آتے اور رات کو دیر تک کتابوں کے مطالعے اور اسباق کی تکرار میں جاگتے رہتے، اس لیے صبح کو اٹھنے میں ذرا کسل مندی ہو جاتی تو محترم مرحوم کو نیچے اوپر تین تین چکر لگانے پڑتے۔ بار بار کبھی اس کے پاس جاتے اور کبھی اس کے پاس، لیکن بلندیِ اخلاق کا یہ عالم تھا کہ اس زحمت کی وجہ سے کبھی طبیعت پر ملال اور تکدر نہیں پیدا ہوا۔
’’اس درمیان میں صبح صادق طلوع ہوچکی ہوتی، اس لیے ادھر سے فارغ