کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 56
دار الحدیث رحمانیہ کے فاضل اور اس کے مدرس مولانا عبد الغفار حسن رحمانی بیان کرتے ہیں : ’’شیخ عبدالرحمن انتہائی سخی اور فیاض ہونے کے ساتھ ساتھ سخت طبیعت کے مالک بھی تھے۔ جب کوئی لڑکا ان کے سامنے غلط بیانی کرتا یا مدرسے کے نظام کی خلاف ورزی کرتا تو بہت زیادہ ناراض ہوتے۔ شیخ عبد الرحمن مدرسے کی بنیاد رکھنے کے بعد صرف ایک سال تک زندہ رہے........ ’’حاجی (عبد الرحمن ) صاحب مرحوم کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے حاجی عبد الستار صاحب نے اپنی توجہ مدرسے کی جانب مبذول کی اور اس کام میں دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا، لیکن افسوس کہ آپ بھی عالمِ شباب میں وفات پاگئے۔ آپ کی والدہ صاحبہ کو اپنے دورِ حیات میں مدرسے سے خاص دلچسپی تھی۔ طلبا کے آرام و آسایش کے لیے آپ ہی نے برقی روشنی اور بجلی کے پنکھوں کا انتظام کیا ۔‘‘ [1] شیخ عطاء الرحمن (۱۸۸۲ھ= ۱۹۳۸ء) اپنے بھائی اور بھتیجے کے انتقال کے بعد اکیلے اس ادارے کو پوری دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ چلاتے رہے ۔موصوف علم دوستی، علما نوازی، اخلاقِ حسنہ اور زہد و تقوے میں کس بلند مقام پر فائز تھے، اس کی جان کاری کے لیے ان کے ان معاصرین کی طرف رجوع کرتے ہیں ، جنھوں نے آپ کے ساتھ کام کیا یا آپ کو قریب سے دیکھا، سمجھا اور پرکھا ہے۔ اس سلسلے میں چند اکابرین کی تحریریں ملاحظہ ہوں ۔ 1۔ معروف عالمِ دین، خطیب و مولف مولانا محمد صاحب جونا گڑھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فیاضی اور سخاوت، کسرِ نفسی اور مروت آپ کے ذاتی اوصاف تھے۔
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور (۱۲؍ اگست ۱۹۹۴ء، ص: ۲۰)