کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 55
مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ تعمیر کرایا گیا اور پھر ان کے ذاتی خرچ سے یہ مدرسہ تا دمِ آخر چلتا رہا۔ مدرسے میں تعلیم کا آغاز شوال ۱۳۳۹ھ مطابق جولائی ۱۹۲۱ء میں ہوا۔ دونوں بھائی اس کے انتظام و انصرام پر بھرپور توجہ صرف کرتے تھے۔ پہلے تعلیمی سال کے تکمیل کے وقت حاجی عبد الرحمن صاحب انتقال فرما گئے۔ آپ کے اوپر فالج کا حملہ ہوا اور بتاریخ ۱۷؍ شعبان ۱۳۴۰ ھ مطابق ۸؍ اپریل ۱۹۲۲ء میں اس عالمِ فانی کو خیر باد کہہ گئے، إنا اللّٰه وإنا إلیہ راجعون۔[1] مولانا نذیر احمد املوی، جو دار الحدیث رحمانیہ کے اولین طلبا میں سے تھے اور پھر اسی مدرسے کی آخری دم تک مدرس و منصرم کی حیثیت سے خدمت بھی کی، وہ شیخ عبدالرحمن کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم نے تو اپنے ہاتھوں لگائے ہوئے اس پودے کی ابھی پہلی پتیاں بھی نہ دیکھی تھیں کہ اﷲ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم سب سے رخصت ہو گئے۔ یعنی پہلے سال کا نتیجہ بھی حاجی صاحب نے نہیں دیکھا، بلکہ جب سال بھر کی تعلیم ختم ہوچکی، سالانہ امتحان کی تیاریاں ہو رہیں تھیں اور عن قریب امتحان ہونے والا تھا کہ شعبان ۱۳۴۰ھ میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ إنا اللّٰه و إنا إلیہ راجعون۔ ’’میں نے حاجی صاحب مرحوم کو بھی دیکھا ہے۔ نہایت خلیق، متواضع، لیکن بارعب انسان تھے، حکومت میں آپ کا بڑا رسوخ تھا۔ بڑے بڑے حکام آپ کی عزت کرتے تھے۔ آپ روزانہ شام کو مدرسے میں آیا کرتے۔۔۔، جمعے کے دن شام کو مدرسے کے اساتذہ کی دعوت کا سلسلہ آپ ہی نے قائم کیا اور الحمدللہ کہ آج تک اپنی پوری شان کے ساتھ جاری ہے۔‘‘ [2]
[1] ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر (۲۳؍ شعبان ۱۳۴۰ھ = ۱۴؍ اپریل ۱۹۲۲ء، ص: ۱۳) [2] رسالہ ’’محدث دہلی‘‘ (نومبر ۱۹۳۸، ص: ۲۳- ۲۴)