کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 54
سال کے بعد ہی شیخ عطاء الرحمن کو جب اس پیشے کے حالات سے سابقہ پڑا تو دل برداشتہ ہوگئے اور توبہ کرنے لگے، بالآخر یہ زمین لاکھوں روپے خسارے پر فروخت کرکے چھٹکارا حاصل کیا اور اپنے سابقہ کاروبار میں مشغول ہوگئے۔‘‘[1] یہ دونوں بھائی مولانا رحیم آبادی کی جوتیاں سیدھی کرنے کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے اور اتنے بڑے صاحبِ ثروت ہونے کے باوجود آپ کی خدمت میں مشغول رہا کرتے تھے۔[2] یہ لوگ مولانا کے اتنے دلدادہ تھے کہ برابر دہلی سے رحیم آباد خدمت میں حاضر ہوتے رہتے اور تحفہ تحائف کا انبار اپنے ساتھ لاتے رہتے۔ ایسی عقیدت تھی کہ زمانۂ علالت میں تو گویا ڈاک بٹھا دی تھی کہ مولانا رحیم آبادی کے حالات ہر دم ملتے رہیں اور مرض کے لحاظ سے یہ لوگ سامان وغیرہ بھیجتے رہیں ۔[3] جب ان دونوں بھائیوں نے کہولت کی حدود سے نکل کر شیخوخت کے مرحلے میں قدم رکھا تو آپس میں طے کیا کہ اب تک کی تجارت کا حساب کتاب دیکھیں اور اپنے حینِ حیات ہی وراثت کا فیصلہ کرلیں ، ہمارے بعد ہمارے بچوں میں یہ اتفاق و اتحاد، جو ہم دونوں بھائیوں میں ہے، وہ رہے نہ رہے، چنانچہ ساری جانچ پڑتال پر یہ معلوم ہوا کہ نقد اور زر و جواہرات کے علاوہ صرف جائیداد ہی اتنی ہے کہ اس کا ماہانہ کرایہ تیس ہزار روپے ہے۔[4] دونوں حضرات کی مشترکہ پونجی میں سے تقریبا ایک لاکھ روپے کے صرفہ سے
[1] مولانا عبد العزیز رحیم آبادی: حیات وخدمات، تالیف: محمد فضل الرحمن سلفی (ص: ۹۴) [2] ایضا (ص: ۹۳) [3] ایضا (ص: ۹۴) [4] مجلہ ’’اہل حدیث، ہریانہ‘‘ (۲۱؍ مئی ۱۹۷۹ء۔ ص: ۷)