کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 46
پر صبر و شکر کی توفیق بخشے! یہ کتاب اس عظیم الشان مدرسے ’’دار الحدیث رحمانیہ‘‘ کے اوراقِ پریشاں کا ایک گراں قدر دستاویزی مجموعہ ہے، جس میں فاضل مصنف نے مختلف مراجع و مصادر کی مدد سے رحمانیہ کی تاریخ مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، گویا یہ ’’دارالحدیث رحمانیہ‘‘ کے عروج کی حسین و جمیل روداد اور اس کے زوال کی ناقابلِ فراموش اور دل دوز داستان ہے: کچھ بلبلوں کو یاد ہیں کچھ قمریوں کو حفظ عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں کوئی مورخ کون سا جگر لے کر اپنے مرکزِ علم و فن بلکہ جہانِ آرزو کے زوال کی داستان قلم بند کرنے کے لیے تیار ہوگا، لیکن قضا و قدر سے مفر انسان کے بس کی بات نہیں ۔ بقول علامہ اقبالؔ (معمولی تصرف کے ساتھ): حکومت کا ہے کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے قانونِ مسلّم سے کوئی چارہ مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو ’’ملّیہ‘‘ میں ، دل ہوتا ہے سیپارہ آزادی کے بعد یوں تو پوری ’’دہلی‘‘ اسلامی تہذیب و تمدن کا مدفن بن کر رہ گئی، لیکن اس مدرسے کے عروج و زوال کی عبرت آموز داستان نے زخمِ دل کو مزید ہرا کر دیا۔ جامعہ سلفیہ، جامعہ محمدیہ، جامعہ ابن تیمیہ، جامعہ امام بخاری اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے توحید و سنت کے دیگر مراکز و مدارس غم غلط کرنے کا بہانہ ضرور ہیں ، لیکن ’’مدرسہ نذیریہ‘‘ اور ’’جامعہ ریاض العلوم‘‘کی اپنی روایتی برقراری اور بعد میں ’’جامعہ اسلامیہ سنابل‘‘ اور اس کے ذیلی مدارس کا قیام اور ان کی ہر طرح کامیابی