کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 323
کا جائزہ لیا، چاروں سمت میں سے پورب پچھم اور اتر میں مدرسے کی قدیم ایک منزلہ عمارت جو کمروں ، برآمدوں اور راہ داریوں پر مشتمل تھی، تقریباً اپنی اصلی حالت میں باقی تھی۔ دکھن جانب دو منزلہ قدرے جدید عمارت نظر آئی۔ مدرسے کی عمارت کے تعلق سے یہ بات گزر چکی ہے کہ اس میں ایک وسیع ہال جسے ’’دار التذکیر‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، مدرسے کے جنوب میں تعمیر تھا۔ یہ ہال ہمیں نظر نہیں آیا، پرنسپل صاحب سے استفسار کرنے پر انھوں نے بتایا کہ جس جگہ یہ دو منزلہ جدید تعمیر ہے، اس جگہ پہلے ایک ہال تھا، جسے توڑ کر اسکول کی ضرورت کے تحت یہ عمارت بنائی گئی ہے۔
بیچ میں جو صحن تھا، وہ کافی کشادہ تھا اور اس میں جگہ جگہ درخت اور پھول پھلواریاں لگی تھیں ۔ مغربی سمت کے کمروں کے بیچ سے ایک راستہ باہر کی طرف جاتا ہوا نظر آیا۔ ہم لوگ اس طرف نکلے تو دیکھا کہ عمارت کے عقب میں زمین سے قدرے اونچائی پر ایک وسیع سبزہ زار ہے، وہاں بھی بچے کھیل کود میں مصروف نظر آئے۔
اسکول کے پرنسپل صاحب سے یہ پوچھنے پر کہ اسکول میں یا اس کے آس پاس کوئی مسجد بھی تھی یا ہے؟ تو انھوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اسکول کے مغرب جانب یہ مسجد ہے، یہ مسجد اب اسکول سے الگ ہے، مگر وہاں تک جانے کے لیے انھوں نے عمارت کے مغربی سمت میں لگے ہوئے ایک بند دروازے کو کھلوا دیا، ادھر سے نکلنے کے بعد ایک کشادہ گلی میں آٹھ دس قدم کے فاصلے پر مسجد نظر آئی، جو تین چار منزلہ جدید تعمیر پر مشتمل تھی۔ مسجد کے مشرقی حصے میں کچھ بے حد قدیم اور بوسیدہ کمرے یا دکانیں نظر آئیں ، مسجد کے موذن جو ابھی قدرے نو عمر تھے، ان سے جب ہم لوگوں نے مسجد کے بارے میں کچھ جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ بہت پرانی مسجد تھی، جسے عطاء الرحمن کی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آٹھ دس سال پہلے اس کی تعمیر نو ہوئی، مگر مشرقی حصے کی دکانوں پر کچھ کرایہ دار قابض ہیں ، جس کی