کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 322
اسکول قائم ہوا، اس وقت دہلی اسٹیٹ کے وزیر تعلیم ’’شفیق الرحمن قدوائی‘‘ تھے، انہی کی طرف منسوب کرکے اسے شفیق میموریل کا نام دیا گیا۔ جو راہ داری اسکول کے اندر تک پہنچاتی تھی، اس کے دونوں جانب کشادہ کمرے تھے، جو آفس کے لیے استعمال ہو رہے تھے، اندرونی حصے کے شروع ہی میں برآمدے میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، ان میں سے ایک صاحب کی طرف اشارہ کرکے ہمیں بتایا گیا کہ یہی اسکول کے ذمے دار ہیں ۔ ہم نے سلام و دعا کے بعد آمد کا مقصد بتایا اور عمارت کا مشاہدہ کرنے اور اس کا کچھ عکس اتارنے کی اجازت لی۔ اس وقت صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے اور اسکول میں درس و تدریس کا عمل جاری تھا، پھر بھی بہت سارے بچے اِدھر اُدھر گھومتے اور شور و ہنگامہ کرتے نظر آئے۔ اکثر درس گاہوں میں اساتذہ یا معلمات بھی موجود تھے، مگر اندر کا حال بھی کسی کلاس میں پرسکون نظر نہیں آیا۔ اسکول بارھویں کلاس تک تھا۔ تعلیم مخلوط تھی، لڑکے لڑکیاں ایک ہی درس گاہ میں پڑھتے تھے۔ اساتذہ میں معلمین کم اور معلمات زیادہ تھیں ۔ یہ دیکھ کر بے حد تکلیف ہوئی کہ اسکول میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ہر طرف شور و ہنگامہ، افراتفری اور جب بھی کسی کے آنے جانے پر گیٹ کھولا جاتا متعدد لڑکے اپنا بستہ لے کر نکل بھاگتے۔ معلمین و معلمات بھی ان کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے، بعد میں اسکول کے پرنسپل صاحب نے معذرت خواہانہ انداز میں بتایا کہ اسکول کے قرب و جوار ہی کے یہ سب مسلم بچے ہیں ، جو غلط ماحول کے پروردہ ہیں ، جھوٹ بولنا، گالی گلوچ اور بدتمیزی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کی اصلاح و تہذیب کے تعلق سے ہم لوگ بے بس اور ایک طرح سے مایوس ہیں ۔ میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے اسلامی مدارس چاہے جتنی بھی گئی گزری پوزیشن میں ہوں ، مگر ایسا منظر شاید کسی مدرسے میں دیکھنے کو نہ ملے۔ بہرحال ہم لوگوں نے اسکول کے چاروں طرف گھوم پھر کر عمارت اور متعلقات