کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 321
’’مولانا موصوف کی رہایش پہلے اجمیری دروازے میں تھی، لیکن میرے فارغ ہونے کے چند سال قبل انھوں نے اپنا ایک عالی شان سہ منزلہ مکان دار الحدیث رحمانیہ کے قریب بنوایا تھا، ان کے اس قرب کی وجہ سے شیخ عبد الرحمن صاحب[1] (بانی مدرسہ) اور مولانا موصوف کے درمیان روابط میں اور اضافہ ہو گیا تھا، عام طور پر فجر کی نماز رحمانیہ کی مسجد میں ادا کرتے تھے۔‘‘[2] بہرحال اس عمارت کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہی راستے کے دا ہنی طرف آٹھ دس فٹ اونچی ایک طویل چہار دیواری نظر آئی، جس کے بیچ و بیچ ایک بڑا سا گیٹ لگا ہوا تھا۔ گائیڈ کی نشان دہی سے قبل ہی دل اشارہ کر رہا تھا کہ ہم منزلِ مقصود کو پہنچ چکے ہیں ۔ اتر دکھن راستے کے مغرب جانب یہ چہار دیواری تھی۔ گیٹ اندر سے بند تھا اور بچوں کے کھیل کود کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد گیٹ کھلا۔ ہم لوگ اندر داخل ہوئے، مدرسہ (جو اَب اسکول تھا) کی عمارت اور باہری چہار دیواری کے بیچ میں ایک کھلی جگہ تھی، جس میں اسکول کے بچے کھیل رہے تھے۔ چہار دیواری اور مدرسے کی پوری عمارت پر ہلکے سبز رنگ کی چوناکاری کی گئی تھی، جو زیادہ پرانی نہ تھی۔ عمارت کے مدخل پر ایک بڑا سا ٹین کا بورڈ لگا ہوا تھا، جس پر اوپر انگریزی، پھر اردو، پھر ہندی، پھر پنجابی زبان میں ’’شفیق میموریل سینیر سکنڈری اسکول‘‘ درج تھا۔ واضح رہے کہ اسکول کے اس نام کی مناسبت یہ ہے کہ ملک کی آزادی اور تقسیم کے وقت مدرسے کی عمارت سرکاری تحویل میں چلے جانے کے بعد جب یہاں
[1] یہاں شیخ عبدالرحمن کے بجائے شیخ عطاء الرحمن کانام ذکر کرنا درست ہوگا، کیونکہ شیخ عبدالرحمن تاسیس مدرسہ کے پہلے ہی سال (۱۹۲۲ء میں ) انتقال کرگئے تھے، ان کے بعد ان کے بھائی شیخ عطاء الرحمن نے مدرسے کو تاحین حیات (۱۹۳۸ء تک) اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ [2] مولانا عبدالغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۹۹)