کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 315
کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’........ یہ ادارہ پوری آن بان اور شان سے چلتا رہا ، یہاں تک کہ ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کا حادثہ پیش آگیا اور دلی میں بھیانک فسادات پھوٹ پڑے۔ مدرسے کی عمارت فرقہ پرستوں کی نظر میں خار بن کر کھٹکنے لگی، لہٰذا مہتمم مدرسہ کو دھمکی آمیز فون پر فون موصول ہونے شروع ہوئے کہ مدرسہ خالی کر دیا جائے، ورنہ اسے نذر آتش کر دیا جائے گا اور بم سے اڑا دیا جائے گا۔ کچھ ایسے ناگزیر حالات پیدا ہوئے کہ مدرسہ بند کرنا پڑا اور اس کے چلانے والے کراچی منتقل ہوگئے۔ یہ ایسا دل دوز حادثہ تھا، جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔۔۔۔‘‘ آگے لکھتے ہیں : ’’مگر جن حالات میں مدرسے کو بند کرنا پڑا، اس کے تذکرے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مدرسے کی عمارتیں آج بھی اپنے ماضی کی شان و شوکت پر آنسو بہا رہی ہیں اور عہد رفتہ کی داستانیں سنانے کے لیے کھڑی ہیں ۔ جہاں صبح و شام قال اللہ، قال الرسول کی ایمان افروز صدائیں بلند ہوا کرتی تھیں ۔۔۔ اب یہاں کچھ سرکاری قسم کے آفس اور اسکول چل رہے ہیں ، یقینا اس ادارے کے در و دیوار ان نفوس قدسیہ کو یاد کر رہے ہوں گے، جنھوں نے اپنے خون پسینے سے اس خاک کو زندگی اور رعنائی عطا کی تھی اور جن کے دم قدم سے اس کے حسن کی عظمت میں چار چاند لگے تھے، انقلابِ زمانہ کے ہاتھوں اب سب کچھ مٹ چکا ہے، چند یادگاریں اور یادیں باقی ہیں ۔‘‘[1]
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (اکتوبر ۱۹۸۴ء، ص: ۲۲۔ ۲۳)