کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 314
حسرت و افسوس کے ساتھ یہ شعر عرض کرتا ہوں :
چہ نسبت است برندی صلاح تقوی را
سماع وعظ کجا نغمہ رباب کجا
یا بالفاظ اقبال:
اڑالی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری
’’اس سے معلوم ہوا کہ جو مدرسے ذاتی طور پر چلائے جاتے ہیں ، ان کی جماعتی حیثیت نہیں رہ جاتی، ان کے ضائع ہونے کا ہمیشہ غم رہے گا اور ہمیشہ اس کا ماتم کیا جائے گا۔۔۔۔‘‘[1]
3۔ مولانا عبد الغفار حسن لکھتے ہیں :
’’۔۔۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۷ء کی شورش میں دار الحدیث رحمانیہ پر غنڈوں کا حملہ ہوا اور یہ علمی آستانہ اجڑ گیا۔ حاجی عبد الوہاب صاحب خلف الرشید شیخ عطاء الرحمن صاحب نے دار الحدیث کے کتب خانے کو محفوظ رکھنے کے لیے اس بحران کی حالت میں یہی مناسب سمجھا کہ سارا کتب خانہ کسی نہ کسی طرح جامعہ ملیہ منتقل کر دیا جائے۔ اب سنا ہے کہ دار الحدیث رحمانیہ کی عمارت میں قال اﷲ اور قال الرسول کی بجائے ہائی اسکول کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں ، جن کی زیادہ تر تعلیم ہندی میں ہوتی ہے۔ إنا اللّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘[2]
4۔ جناب فاروق اعظمی صاحب مدرسے کے بند کیے جانے کے واقعے کو بیان
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (اگست ۱۹۹۲ء، ص: ۱۸)
[2] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور (۴؍ نومبر ۱۹۹۴ء، ص: ۲۱)