کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 313
بلی نحن کنا أھلھا فأبادنا صروف اللیالي والخطوب الزواجر ’’وہ غیر محسوس غلطی، وہ اندوہناک فروگذاشت یہ تھی کہ اس پورے کارخانہ علم و حکمت کو وقف نہیں کیا گیا تھا۔ لہٰذا یہ شخصی جائیداد قرار دے دی گئی اور اس کے مالک، بانی، مہتمم یا کرتا دھرتا جو کچھ تھے، وہ کراچی سدھار گئے، لہٰذا پورا مدرسہ اور اس سے متعلقہ املاک و اثاثہ شخصی تھا، جب مالک رفیوجی بن کر کراچی سدھار گئے تو یہ تمام متروکہ اثاثہ متروکہ پراپرٹی بن گیا، جس پر از روئے قانون کسٹوڈین کا قبضہ و تسلط ہوگیا اور اب اس میں ایک اسکول کھلا ہے اور کچھ خاندان آباد ہیں ، إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔‘‘ [1] 2۔ مولانا عبد الرؤف رحمانی لکھتے ہیں : ’’یہ مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی چونکہ شیخ عبدالرحمن و شیخ عطاء الرحمن صاحبان کا ذاتی تھا، وہ اپنی آمدنی سے چلاتے تھے، اس ہوش ربا عالم میں شیخ عبدالوہاب صاحب کو خیال نہ رہا، اس کو آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے سپرد کر دیں ۔ (میرے استاد محترم علامہ نذیر احمد رحمانی اس وقت مدرسے کے صدر مدرس تھے، اسی اثنا میں تقسیم کا حادثہ پیش آگیا اور مدرسہ رحمانیہ کے لٹ جانے اور علامہ نذیر احمد رحمانی کے پکڑے جانے کا حادثہ پیش آگیا، اس وقت حاجی عبد الوہاب نے مدرسہ رحمانیہ کو جامعہ ملیہ کے حوالہ کردیا۔ حاشیہ ) ’’افسوس اب یہ مدرسہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ۔۔۔ بہت ہی
[1] مجلہ ’’اہلِ حدیث‘‘ ہریانہ (۲۱؍ مئی ۱۹۷۹ء، ص: ۹)