کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 312
جواہر کے سوتے جاری کر دیے تھے، بلکہ عملی طور پر اپنے وجود کو بھی اس لیلائے تہذیب و علم پر مجنونانہ نثار و فدا کر دیا تھا اور شب و روز اس ایوانِ تعلیم و تدریس کو کعبۂ مقصود و عطائے معبود سمجھ کر اس کے باب الداخلہ پر دربان بنے بیٹھے رہتے تھے، صرف بعد مغرب گھر جاتے اور صبح کی نماز اکثر و بیشتر مدرسے ہی کی مسجد میں ادا کرتے، بلکہ اذان سے بھی پہلے اکثر آجایا کرتے تھے اور ہاتھ میں چھے سیل کا ٹارچ لیے کمرہ بہ کمرہ پہنچ کر طلبا کو بیدار کرتے تھے۔ یہ سب کچھ تھا، مگر ایک معمولی سی فروگزاشت، ایک ادنیٰ سی ناقابلِ توجہ و التفات لغزش کا شرارہ غفلت و لاعلمی کی خاکستر میں دبا اور چھپا ہوا رہ گیا تھا، جو تقسیمِ ہند کے نتیجے میں شرارے سے شعلہ، شعلے سے نار نمرود کی طرح ملتہب ہوکر اس سارے کارخانہ علم و حکمت اور شاہ کارِ علم پروری و خدمت گزاری کو آن کی آن میں جلا کر خاک سیاہ کر گیا۔ وہ کتاب و سنت کا لہلہاتا ہوا گلزار، وہ قال اﷲ و قال رسول اﷲ کے سامعہ نواز نغمے، وہ اساتذہ و تلامذہ کے بصارت افزا اجتماعات اور علما و طلبا کے بصیرت بخش علمی و فنی اشکالات و جوابات ایک طلسم ہوش ربا و فسانہ دل گداز بن کر رہ گئے۔ ’’آہ فآہ! امت مرحومہ کی علمی امیدوں اور آرزوؤں کی آماجگاہ، مستقبل کے شان دار علمی و فنی نتائج کی امیدگاہ اور ہند میں کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کا منبع و مرکز۔۔۔ اگر کوئی صاحبِ دل ہے اور دل میں احساس اور تاثیر رکھتا ہے تو رحمانیہ کے در و دیوار سے یہ صدا بلند ہوتی ہوئی سن لے: کأن لم یکن بین الحجون إلی الصفا أنیس ولم یسمر بمکۃ سامر