کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 311
صرف اور صرف اسی معیار کی مثالی درس گاہ دوبارہ قائم کرکے دنیا کے سامنے دارالحدیث رحمانیہ کی یاد تازہ کر دینی چاہیے اور تعلیم و تربیت کے رو بزوال نظام کو پھر سے پٹری پر لے آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اﷲ کے فضل سے جماعت میں سیکڑوں عطاء الرحمن اور عبد الوہاب موجود ہیں ، جو اس تاریخ کو دہرانے کی صلاحیت اور استطاعت رکھتے ہیں ۔
واضح رہے کہ ۱۹۳۴ء میں ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی اور اخبار ’’اہل حدیث‘‘ امرتسر وغیرہ میں دار الحدیث رحمانیہ کو اہلِ حدیث کانفرنس کے ماتحت کرنے اور نہ کرنے کو لے کر بحث چل پڑی تھی۔ مدرسے کی طرف سے اس ضمن میں ایک تفصیلی تحریر شائع کی گئی، جس میں اسے شخصی رکھنے کی حکمت اور کانفرنس کے ماتحت کرنے کے مضرات پر روشنی ڈالی گئی۔[1]
اب سطور ذیل میں ان اہلِ علم و فضل کے بیانات و تاثرات بعینہٖ نقل کیے جاتے ہیں ، جنھوں نے مدرسے کے بند کیے جانے کے واقعے کی تفصیلات ذکر کی ہیں ۔
1۔ مولانا حکیم عبد الکریم قریشی لکھتے ہیں :
’’اگرچہ بانی مدرسہ کی نیت وقف ہی کی تھی، اس سے فائدہ بھی قوم و ملت ہی کو پہنچ رہا تھا۔ ہند کے ہر صوبہ و ہر ریاست سے تشنہ کامانِ علم و حکمت و دل دادگان شاہد قرآن و سنت جوق در جوق اس سرچشمۂ علومِ قرآن و سنت پر وارد ہو رہے تھے اور اپنے اپنے ذوق و شوق کی طاقت و وسعت کے مطابق سیراب و فیض یاب ہو رہے تھے، اگرچہ بانیِ مدرسہ نے اس گلستانِ علوم و فنون کی آب یاری و سیرابی کے لیے نہ صرف اپنے تمول و زر و
[1] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (یکم اگست ۱۹۳۴ء، ۱۵؍ اگست ۱۹۳۴ء، یکم ستمبر ۱۹۳۴ء، یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء) اور ان ہی تواریخ کے آس پاس کے اہل حدیث امرتسر کے شمارے۔