کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 296
سے ملا۔ ان کے اخلاق کریمانہ کا شکریہ کسی طرح ادا نہیں ہو سکتا۔ ایک طالب علم نے عربی قصیدہ پڑھا اور چہل حدیث مع ترجمے کے سنائی، اس کے بعد ایک لڑکے نے فضیلتِ قرآن پر مختصر اور جامع تقریر اردو زبان میں کی۔ غرض کہ دار الحدیث ’’قرآن و حدیث‘‘ کا ایک پھلتا پھولتا چمن ہے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جناب شیخ صاحب کو عمر خضری عطا فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین۔‘‘
سید عبد الحفیظ سلفی گیاوی
ایڈیٹر مجلہ سلفیہ لہریا سرائے دربھنگہ، تاریخ ۲۹؍مارچ ۱۹۳۷ء [1]
رحمانیہ کے بعض اساتذہ کے تاثرات:
رحمانیہ کے بعض اساتذہ کے تاثرات بھی ملاحظہ ہوں :
٭ ’’......میں یقین کے ساتھ لکھتا ہوں کہ مدرسہ رحمانیہ جن بہترین خصوصیات کا جامع ہے، ہندوستان کی دوسری درس گاہیں ان سے خالی ہیں : آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری......‘‘
شیخ الحدیث عبید اﷲ رحمانی مبارک پوری (مدرس رحمانیہ) [2]
٭ ’’.... یہ مدرسہ طلبا کو نہ صرف مذہبی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رفتارِ زمانہ اور دنیاوی ضروریات و وقتی مسائل سے بھی خبردار کرتا ہے.....‘‘ عبیدالرحمن طالب اعظمی (مدرس رحمانیہ) [3]
٭ ’’...... حقیقت یہ ہے کہ ان حضرات کی مذہبی قربانیاں ، مدرسہ مذکورہ کا
[1] رسالہ ’’محدث دہلی‘‘ (نومبر ۱۹۳۸ء، ص: ۱۶)
[2] ایضاً (ص: ۸)
[3] ایضاً (ص: ۹)