کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 295
٭ مولانا فضل الرحمن غازی پوری پروفیسر کلکتہ یونیورسٹی۔
مولانا موصوف نے رحمانیہ کے بارے میں اپنے تاثرات حسبِ ذیل الفاظ میں بیان فرمائے:
’’مجھے دار الحدیث رحمانیہ دہلی کو آج چار سال کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ میری عرصے سے یہ رائے ہے کہ مدرسہ اس وقت اپنی متعدد خصوصیات کے لحاظ سے ہندوستان میں اہلِ حدیث کا بہترین دینی مدرسہ ہے۔ اس کی عالی شان وسیع عمارت، لائق مدرسین، محنتی و پابند شرع طالب علم اور اچھے انتظام کو دیکھ کر میرے دل میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں ۔‘‘[1]
٭ ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی۔
ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی سابق امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تاثرات اس طرح ہیں :
’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی شرکت کے لیے ۲۸؍ مارچ (۱۹۳۷ء) کو علی گڈھ پہنچا، وہاں پہنچ کر دار الحدیث رحمانیہ کی محبت نے مجھے مجبور کیا کہ میں دہلی سے بھی ہو آؤں ۔ دار الحدیث دیکھنے کے بعد مجھے بے حد مسرت ہوئی۔ دار الحدیث صحیح معنوں میں دین متین کی خدمتیں انجام دے رہا ہے۔ میں پہلے طلبا کے کمروں میں گیا۔ صفائی سے کمروں کو مزین پایا۔ طلبا بھی مجھ سے بہت اخلاق سے ملے۔ اس کے بعد طلبا کی کسرت دیکھی۔ اس کے لیے بھی ایک خاص استاد مقرر ہیں ۔ دار الحدیث کا یہ کارنامہ قابلِ صد تحسین و ستایش ہے کہ روحانی تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی تعلیم کا بھی انتظام کیا ہے۔ دار الحدیث کے مہتمم جناب شیخ عطاء الرحمن صاحب
[1] مولانا عبدالغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۹۸)