کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 293
’’مدرسہ رحمانیہ کے دسویں سالانہ جلسے میں مَیں نے بھی شرکت کی۔ مجھے مدرسے کی عمارت اور اس کی انتظامیہ دیکھ کر بے انتہا مسرت ہوئی اور میں اس بات کے کہنے میں مطلقاً مبالغہ نہیں سمجھتا کہ سارے ہندوستان میں اہلِ حدیث کا قابلِ فخر بھی ایک مدرسہ ہے، جسے صحیح معنوں میں مدرسہ کہنا چاہیے۔ نتیجہ امتحان مجموعی طور پر بہت اچھا رہا، خدا اس مدرسے کو تاابد قائم رکھے۔‘‘[1]
٭ مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی۔
1۔ موصوف اپنی مشہور زمانہ تالیف ’’ تراجم علمائے حدیث ہند ‘‘ میں ایک جگہ حاشیہ میں لکھتے ہیں :
’’دار الحدیث رحمانیہ کے بانی شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن رؤساے دہلی سے ہیں ۔ شیخ عبد الرحمن صاحب کا ۱۹۲۱ء میں انتقال ہوگیا اور شیخ عطاء الرحمن صاحب سایہ افگن ہیں ۔ (خدا عمر میں اور ترقی بخشے )
’’یہ دار الحدیث ۱۳۳۹ھ میں قائم ہوا، اس کے تمام مصارف صاحب مہتمم کے ذمے ہیں ، ایک عمارت جدید التعمیر ہے باڑہ ہندو راؤ میں ، جس میں دار التعلیم اور دار الاقامہ علاحدہ علاحدہ ہیں ۔ طلبا کے خور و نوش کا ذمے دار مدرسہ ہے اور کھانا عمدہ ملتا ہے۔ اساتذہ کی تنخواہوں کا معیار بلند ہے کہ شیخ الحدیث کو نوے روپے ماہانہ پیش ہوتے ہیں (وقس علی ہذا)، ایک وقت میں بقدر ۸ کے اساتذہ اور طلبا جس قدر آسکیں ، مدتِ نصاب آٹھ سال، نصاب درس نظامی مع حدیث و تفسیر، یعنی موجودہ حالت میں بلند تر ہے۔ مدرسے کا ایک ماہانہ رسالہ محدث ہے، جو بلا طلب قیمت شائقین
[1] مولانا عبدالغفار حسن رحمانی، حیات و خدمات (ص: ۹۴)