کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 292
صورت میں تحریر فرمائے: ’’میں نے آج درس گاہ کا معاینہ کیا ، بحمد اﷲ مدرسہ ہذا تمام انتظامات مکان ، رہایش اور خور و نوش کے لحاظ سے نہایت ا علی پیمانے پر ہے۔ طلبا نے میرے سامنے تقاریر کیں اور ادیان غیر اسلامی کے مقابلے میں دینِ اسلام کی صداقت کو عقلاً و نقلاً ثابت کیا۔ یقینا طلبا میں ملکہ تحریر و تقریر و تبلیغ کی مدد کرنے کی سعی نہایت قابلِ تحسین ہے۔‘‘[1] ٭ مولانا سید عبد اﷲ صاحب خلف الرشید مولانا عبد اﷲ صاحب غزنوی: منشی فاضل مولوی فاضل، ممتحن السنۃ شرقیہ پنجاب و صوبہ سرحد آپ تحریر فرماتے ہیں : ’’آج پندرہ سال کے بعد مجھے دہلی آنے کا اتفاق ہوا، سب سے بہتر و زیادہ خوش کن، مسرت افزا و ایمان تازہ کن بات، جو یہاں میں نے دیکھی، وہ مدرسہ رحمانیہ کی رونق ہے، نہ صرف رونق بلکہ بلڈنگ، عمارت مدرسہ نہایت شان دار، صحت افزا و فراخ کمرہ جات، طلبا میں باقاعدگی و حاضری وغیرہ تمام امور نہایت عمدہ اور موزوں و قابلِ تعریف ہیں ۔ اعلی مدرس و نیز دیگر جماعت کے علما و فضلا نیک سیرت دیکھنے میں آئے۔‘‘ تاریخ آمد ۲۵؍ دسمبر ۱۹۳۰ء۔‘‘[2] ٭ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی۔ ’’مولانا موصوف ۲۹؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو رحمانیہ میں تشریف لائے۔ رحمانیہ کے بارے میں آپ کے تاثرات یہ ہیں :
[1] مولانا عبدالغفار حسن رحمانی، حیات و خدمات (ص: ۹۳) [2] ایضاً (ص: ۹۳۔ ۹۴)