کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 289
6۔ پروفیسر عبد العزیز میمنی: میمنی صاحب نے متعدد بار مدرسے کی زیارت کی۔ آپ ہمیشہ طلبا، اساتذہ و منتظمین کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے اور انھیں اپنے تجربات کی روشنی میں مفید مشوروں سے نوازتے رہتے تھے۔ ۱۹۳۸ء میں مدرسے کے سالانہ اختتامی اجلاس کے موقع پر آپ بھی شریکِ مجلس تھے۔ مدرسے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’۲؍ اکتوبر (۱۹۳۸ء) کو یہ جلسہ مدرسے کے عظیم الشان ہال میں ہوا۔ دہلی کے مولوی صاحبان، رؤساے کرام، حنفی اہلِ حدیث سب موجود تھے، بعد از اختتامِ جلسہ سب نے یہیں طعام نوش فرمایا، اس جلسے میں اب کی مرتبہ بحمد اﷲ مولانا عبدالعزیز صاحب میمن (پروفیسر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) بھی تشریف لائے تھے، جس سے حجم بڑھ بھی گیا اور بارونق بھی ہوگیا۔ آپ نے عربی زبان میں نہایت فصیح و بلیغ ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔۔۔ جب آپ تقریر ختم کر چکے تو اردو داں پبلک کی تسلی کے لیے پھر آپ نے اردو میں بھی تقریر فرمائی، ساتھ ہی عرب عبد اﷲ بن محمد نجدی صاحب نے بھی ایک نہایت معرکہ آرا خطبہ پڑھا، جس میں اتحاد و اتفاق وغیرہ جیسے مضامین پر بہت کچھ روشنی ڈالی۔ آخر میں مولانا محمد ایڈیٹر ’’اخبارِ محمدی‘‘ دہلی نے مہتمم صاحب کی طرف سے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور جلسے کو ختم کیا۔‘‘[1] ایک مصری شیخ کی مدرسے میں آمد سے متعلق واقعہ: مولانا عبد الوہاب حجازی حفظہ اللہ نے (محدث شیخ الحدیث نمبر) میں ایک عبرت آموز واقعہ بیان کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں : ’’مولانا ابو البرکات جھنڈا نگری نے مجھ سے بیان کیا کہ مدرسہ رحمانیہ کی
[1] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (۱۵؍ اکتوبر ۱۹۳۸ء، ص: ۱۴۔ ۱۵)