کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 288
کے باہمی روابط پر ایک پرمغز اور نشاط پرور تقریر فرمائی۔ اس مجلس میں بہت سے اکابرِ ملت شریک ہوئے، مثلاً مولانا محمد صاحب جوناگڑھی، ڈاکٹر ذاکر حسین وائس چانسلر جامعہ ملیہ دہلی، شیخ التفسیر خواجہ عبد الحی صاحب فاروقی، مولانا محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی۔ یہ مجلس بڑی پرلطف اور شان دار رہی۔‘‘[1]
5۔پروفیسر مولانا سید ابو طلحہ :
مولانا عبد الرؤف رحمانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’ایک دن اچانک مولانا سید ابو طلحہ پروفیسر اورینٹل کالج لاہور جامعہ میں تشریف لائے۔ جامعہ کے گیٹ پر ہمارے شیخ عطاء الرحمن ناظم جامعہ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے، اٹھ کر پروفیسر صاحب کا استقبال کیا اور ان کی طلب پر آپ کو درس گاہ میں جانے کی اجازت دی۔ پروفیسر صاحب درس گاہ کی جانب بڑھے، جس درس گاہ کی طرف جاتے، اساتذہ و طلبا ان کا خیر مقدم کرتے۔ آپ بڑے گورے چٹے، خوب صورت آدمی تھے۔ ترکی ٹوپی لگائے ہوئے عبا اور شیروانی میں ملبوس تھے۔ لڑکے ان کا استقبال کرتے رہے، یہاں تک کہ میرے استاد کی درس گاہ میں آئے، جہاں مولانا عبدالسلام صاحب درانی پڑھا رہے تھے، ہم لوگوں کا سبق شروع کرنے والے ہی تھے کہ پروفیسر صاحب کو اپنی طرف آتے دیکھا، فوراً استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے، پروفیسر صاحب مولانا کے ساتھ درس گاہ میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے، پھر مولانا سے عرض کیا کہ میں اس لیے حاضر ہوا کہ آپ درس دیں اور اس سے استفادہ کروں ۔ یہ گھنٹی شرح مواقف کی تھی۔‘‘[2]
[1] مولانا عبدالغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۹۷)
[2] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (مئی ۱۹۹۹ء، ص: ۳۱۔ ۳۲) ماہنامہ ’’السراج‘‘ نیپال، خطیب الاسلام نمبر (مئی۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء، ص: ۴۳۰۔ ۴۳۳ )