کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 287
نہیں ، لیکن میرے مذاکرے کے استاذ ہیں ، میں نے ان سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔‘‘[1] 3۔ شیخ شویل، قاضی مدینہ: ’’اخبارِ محمدی‘‘ دہلی کے ۱۹۳۳ء کے ایک شمارے میں دار الحدیث رحمانیہ سے متعلق خبروں میں ایک خبر اس طرح ہے: ’’قاضی مدینہ طیبہ حضرت شیخ الشویل صاحب کو ۹؍ نومبر ۱۹۳۳ء کو مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ میں ٹی پارٹی دی گئی۔ آپ نے مدرسے کا معاینہ فرمایا، طلبا کی عربی تقریریں سنیں ، بے حد محظوظ ہوئے، پھر آپ نے وعظ و پند سے طلبا اور حاضرین مجلس کو سرشار فرمایا اور مدرسے کے متعلق اپنے بیش بہا خیالات کا اظہار فرمایا۔۔۔‘‘[2] قاضی صاحب کے ساتھ شیخ محمد زیدان (مدرس مدرسہ سعودیہ مدینہ منورہ) بھی تھے، انھوں نے بھی اس نشست میں اپنے تاثرات بیان فرمائے اور مدرسے سے متعلق بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔ مولانا عبد الغفار حسن نے لکھا ہے کہ قاضیِ مدینہ کا ایک بیٹا دار الحدیث رحمانیہ میں اس وقت زیرِ تعلیم تھا۔[3] 4۔ جمال الدین پاشا الغزی، مندوب حکومتِ حجاز: ’’۱۳۵۲ھ میں دار الحدیث رحمانیہ میں تشریف لائے، آپ کے سامنے طلبا نے ارتجالاً عربی میں تقریریں کیں ، جن سے آپ بہت محظوظ ہوئے۔ دوسرے روز آپ کو مدرسے کی طرف سے ناشتے کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر آپ نے عربوں اور ترکوں
[1] مجلہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ برمنگھم (جنوری ۱۹۹۹ء، ص: ۱۵) [2] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (۱۵؍ نومبر ۱۹۳۳ء، ص: ۱۳) [3] ملاحظہ ہو: مولانا عبد الغفار حسن، حیات و خدمات (ص : ۷۷)