کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 286
مولانا عبدالغفار حسن رحمانی سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ سے پڑھنے کا موقع ملا ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا:
’’ہاں ، جب مولانا مبارک پوری اپنی آنکھوں کے علاج کے سلسلے میں دہلی تشریف لایا کرتے تھے تو دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں مولانا عبیداﷲ مبارک پوری کے کمرے سے متصل ایک خاص کمرے میں ٹھہرتے۔ ان ایام میں ہم ان سے استفادہ کرتے۔ انھوں نے باقاعدہ تو ہمیں نہیں پڑھایا، لیکن وہ ہمیں سبق یاد کروایا کرتے تھے اور بعض اوقات خود بھی کوئی مسئلہ پیش کرتے اور پھر ہم سے اس کا جواب پوچھتے اور خوب مناقشہ کرتے اور پھر خود ہی ان مسائل کا جواب دیتے۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب ہم جامع ترمذی پڑھا کرتے تھے، انھوں نے ہمارا ششماہی امتحان بھی لیا تھا ۔۔۔۔
’’مولانا مبارک پوری اکثر حدیث کی سند اور متن کے حوالے سے سوال کیا کرتے تھے، جب کہ عام طور پر لوگ لغوی سوالوں پر زور دیتے ہیں ۔ جب میں رحمانیہ میں آخری سال کا طالب علم تھا تو ناظم مدرسہ نے مدرسے میں نمازوں کی امامت میرے سپرد کر رکھی تھی۔ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ میں نے جمعۃ المبارک کے روز فجر کی نماز میں سورۃ السجدۃ اور دوسری رکعت میں سورۃ الدھر مکمل نہ پڑھیں تو ایک لڑکے نے مولانا مبارک پوری کو جا کر بتایا کہ عبدالغفار نے آج سنت کی مخالفت کی ہے۔۔ انھوں نے مجھے بلا کر سرزنش کی کہ آیندہ ایسا نہ کرنا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ آپ فجرِ جمعہ میں ان دو سورتوں کی مکمل تلاوت کیا کرتے تھے، اس طرح مولانا عبدالرحمن مبارک پوری میرے درسی استاذ