کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 285
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض مہمانوں کی آمد اور استقبال کی کچھ تفصیلات بھی یہاں درج کر دی جائیں ، جن سے مدرسے کی سرگرمیوں کے کچھ پہلو بھی سامنے آجائیں گے۔
1۔ مولانا ابو الکلام آزاد:
مولانا آزاد کی مدرسہ رحمانیہ میں آمد اور اس موقع سے منعقد ہونے والے پروگرام کا نقشہ کھینچتے ہوئے مولانا عبدالغفار حسن رحمانی لکھتے ہیں :
’’۱۹۲۷ء میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ مدرسہ رحمانیہ میں تشریف لائے اور مدرسے کے وسیع ہال (دار التذکیر) میں دینی نظامِ تعلیم پر انتہائی معلومات افزا خطاب فرمایا۔۔۔ تقریر کے بعد مولانا کی چائے سے ضیافت کی گئی۔ اس موقع پر ان کی ملاقات ہمارے ایک ساتھی محمد عمر سے ہوئی جو پنجاب کا رہنے والا تھا اور کھدر پوش تھا، انھوں نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ میں نے بھی قریب ہوکر مصافحہ کیا اور کچھ سوال و جواب ہوئے۔ مولانا موصوف نے بڑی محبت سے طلبا سے گفتگو کی اور ان سے حالات دریافت کیے۔‘‘[1]
2۔ مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری:
مولانا عبد الرحمن صاحب اپنی تصنیف لطیف ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کی کتابت و طباعت کے سلسلے میں دہلی کا سفر کرتے رہتے تھے، ان ہی اسفار میں آپ کی آنکھ کا علاج و آپریشن بھی ہوا۔ دہلی میں مولانا کا قیام دار الحدیث رحمانیہ میں ہوا کرتا تھا۔ مدرسے کے طلبا و اساتذہ کے بیچ مولانا کی موجودگی غنیمت مانی جاتی اور ان کے علوم و تجربات سے استفادے کی کوشش کی جاتی۔
[1] مولانا عبد الغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۷۸۔ ۷۹)