کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 284
مولانا سید عبد اﷲ بن عبد اﷲ غزنوی مولانا ابو القاسم سیف بنارسی پروفیسر عبد العزیز میمنی پروفیسر سید ابو طلحہ جمال الدین پاشا غزی (مندوب حجاز ) مولانا اعزاز علی (دار العلوم دیوبند ) مولانا فضل الرحمن باقی غازی پوری مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی مولانا محمد صاحب جوناگڈھی شیخ شویل قاضی مدینہ مولانا عبد التواب علی گڑھی مولانا فضل حق خیر آبادی[1] خواجہ عبد الحی فاروقی مولانا اسلم جیراج پوری وغیرہم شیخ خلیل عرب
[1] مولانا فضل حق خیر آبادی علومِ حکمیہ میں مہارت رکھتے تھے اور بعض مسائل میں حضرت مولانا محمد اسماعیل شہید دہلوی سے ان کی بحثیں رہیں ۔ انھوں نے مدرسہ رحمانیہ کے قیام سے تقریباً ساٹھ سال قبل اگست ۱۸۶۲ء میں وفات پائی۔ اس لیے ان کا مدرسے میں تشریف لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے تشریف لانے والوں میں مولانا فضل حق رام پوری ہوں گے، جنھیں غلطی سے خیر آبادی لکھا گیا، ان کا شمار بھی علومِ حکمیہ کے ماہرین میں ہوتا تھا۔ وہ ذیقعدہ ۱۳۵۸ھ (جنوری ۱۹۴۰ء) میں فوت ہوئے۔ یعنی مدرسے کے قیام سے انیس سال بعد۔ اس وقت مدرسہ رحمانیہ اپنی کارکردگی کے اعتبار سے پورے جوبن پر تھا۔ [محمد اسحاق بھٹی]