کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 271
نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ علمِ حدیث کے ساتھ ساتھ تفسیر اور عربی ادب میں بھی اونچے درجے کے قابل استاذ رکھنے چاہییں ۔ مولانا محمد سورتی مرحوم عربی ادب اور اسماء الرجال کے حافظ تھے، اس میں کوئی ان کا ہم پلہ نظر نہیں آتا تھا، لیکن حدیث پڑھانا بڑی بات ہے اور خاص طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تدریس، ان کتابوں کو وہی پڑھا سکتا ہے جس نے بار بار گہرا مطالعہ کیا ہو۔ ’’میرا تجربہ یہ ہے کہ اگر کسی نوجوان مدرس کو پہلی بار صحیح بخاری پڑھانے کے لیے دی جائے تو اس کو ایک دو سبق حدیث کے دیے جائیں ، زیادہ اس پر بوجھ نہ ڈالا جائے، تاکہ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو اچھی طرح پڑھا سکے اور طلبا کو مطمئن کرسکے، لیکن جو استاذ پندرہ بیس سال سے متواتر پڑھا رہا ہو، خاص طور پر صحیح بخاری، تو اس کو مزید اسباق پڑھانے کے لیے دیے جائیں یعنی چھے سات اسباق۔ ’’یہاں یہ معاملہ ہوا کہ مولانا محمد سورتی جامعہ ملیہ سے آئے تھے، وہاں کا نصاب بہت ہلکا تھا اور حدیث کی تعلیم کا معیار ابتدائی انداز کا تھا۔ اب رحمانیہ میں آکر ان کو چار کتابیں دے دی گئیں ، یعنی صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن ابی داود، جامع ترمذی اور اس کے ساتھ ساتھ شرح نخبۃ الفکر اور ادب کی ایک کتاب ’’مقامات حریری‘‘، جہاں تک مقاماتِ حریری کا تعلق تھا تو اس کے طلبا بڑے خوش تھے کہ ادب پڑھنے میں اب مزہ آرہا ہے اور چونکہ مولانا سورتی کا تقرر وسط سال میں ہوا تھا، اسی لیے راقم الحروف کی جماعت نے ان کے پاس ترمذی کا اخیر حصہ پڑھا، جس میں فقہی مسائل کم ہیں ، اس لیے ہمیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، لیکن جو طلبا