کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 270
مولانا محمد سورتی تشریف فرما تھے۔ مولانا سورتی مرحوم دونوں کے درمیان میں تھے، اس مجلس میں شیخ عطاء الرحمن مدرسے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اور یہ دونوں حضرات ان کی گفتگو بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ شیخ عطاء الرحمن کی گفتگو جاری تھی کہ اچانک مولانا مبارک پوری نے مولانا سورتی کو مخاطب کرتے ہوئے کوئی علمی نقطہ بیان کرنا شروع کر دیا، تو میں نے دیکھا کہ مولانا سورتی نے فوراً اپنا چہرہ شیخ عطاء الرحمن کی طرف سے ہٹا کر مولانا مبارک پوری کی طرف پھیر لیا اور انھوں نے اس بات کی پروا نہ کی کہ ان کا یہ طرزِ عمل شیخ عطاء الرحمن کو ناگوار ہو سکتا ہے، اس لحاظ سے ان کی بے باکی مشہور تھی۔ ’’وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں کسی بڑے سے بڑے مال دار کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ مولانا مرحوم کے بارے میں شیخ عطاء الرحمن کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ وہ علمِ حدیث اور اسماء الرجال کے ماہر ہیں ، اس لیے ان کا تقرر بطور شیخ الحدیث کیا گیا تھا اور ان کا مشاہرہ بھی ایک سو پچاس(۱۵۰) روپے تھا، جو اس زمانے میں بڑی تنخواہ تھی، اس کے مقابلے میں مولانا احمد اﷲ صاحب کا مشاہرہ تقریباً سو (۱۰۰) روپے تھا اور میرے داخلے سے پہلے مولانا غلام یحییٰ کانپوری کا مشاہرہ ایک سو پچیس (۱۲۵) روپے تھا۔ ’’باقی دوسرے مدرسین کی تنخواہیں ساٹھ (۶۰) یا ستّر (۷۰) روپے سے زیادہ نہ تھیں ۔ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ شیخ عطاء الرحمن صاحب کو اس زمانے کے اہلِ علم نے بتا دیا تھا کہ علمِ حدیث اور معقولات ایسے علوم ہیں ، جن کے لیے انتہائی فاضل، قابل اور متخصص اساتذہ ہونے چاہییں ، لیکن کسی