کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 262
مولانا عبدالغفار حسن شیخ صاحب کی وفات پر مولانا عبد الرحمن بن شیخ الحدیث کے نام اپنے تعزیتی خط میں ان الفاظ میں آپ کے طریقۂ درس پر روشنی ڈالتے ہیں : ’’.... مولانا مرحوم کا اندازِ تدریس ایسا تھا کہ جیسے پرسکون سمندر میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھتی اور ابھرتی ہیں ، یعنی پرجوش خطابت کے بجائے پرلطف انداز میں تفہیم کا پہلو ہوتا تھا، جیسے کسی سے خوش گوار انداز میں گفتگو کررہے ہیں اور تدریس کا انداز دھیما تھا اور پروقار اور پرتاثیر، جس وقت میں ۲۶ء میں دار الحدیث رحمانیہ میں داخل ہوا تو مولانا مرحوم آٹھویں سال (آخری سال) میں زیر تعلیم تھے۔ حدیث کی دونوں کتابیں (بلوغ المرام و موطا) انھوں نے بڑی محنت اور کاوش سے پڑھائیں ۔ دونوں کتابوں پر حواشی باریک خط میں ان کی علمی یادگار کے طور پر آپ کے پاس موجود ہوں گے، ان کو محفوظ رکھیے۔‘‘[1] جناب محمد مرتضی صاحب (صاحب گنج ، بہار) حضرت شیخ الحدیث کی تدریس کے بارے میں اپنے تعزیتی خط میں لکھتے ہیں : ’’شیخ الشیوخ حضرت شیخ صاحب رحمہ اللہ کی حدیث کی تدریسی خدمت بے لوث تھی اور آپ کا بیان مختصر اور عام فہم ہوتا تھا، ساتھ ہی ساتھ مذہبی اختلافات کو مدلل بسط وتفصیل کے ساتھ ذکر فرماتے تھے، حل عبارت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہوتی، مثلا علمِ صرف، نحو، علمِ معانی، بیان، علمِ تفسیر وغیرہ کو بقدر ضرورت زیرِ مطالعہ رکھتے تھے، تاکہ حدیث کا مطلب بیان کرنے میں کوئی گوشہ تشنہ نہ رہے، بنابریں آپ کی درس گاہ میں طلبا کی بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ مدرسہ رحمانیہ کے علاوہ دیگر مدارس سے بھی لڑکے
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس، شیخ الحدیث نمبر (ص: ۳۰)