کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 261
جو احادیث کی شرح کے ساتھ جرح و تعدیل اور تخریج و تحقیق اور ظاہری تعارض کے حل پر مشتمل ہوتا۔ بعض اوقات راویوں کے احوال کے بارے میں بحث کیا کرتے۔ مولانا مبارک پوری فنِ حدیث میں بڑی وسیع معلومات رکھتے تھے۔ بڑی محنت، عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔ جسمانی کمزوری کے باوجود بڑے مطالعے اور تحقیق کے ساتھ درس دیا کرتے تھے۔ طلبا کو نقلی اور عقلی دلائل دے کر سبق ذہن نشین کراتے۔ بڑی مفید علمی معلومات جمع کرکے لاتے، مگر افسوس کہ اس وقت ان معلومات کو جمع نہ کیا جاسکا۔‘‘
اس کے بعد مولانا عبد الغفار حسن شیخ صاحب کے طریقۂ تدریس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’سب سے پہلے طالب علم کتاب سے تین حدیث پڑھتا، پھر استاذِ محترم حدیث کی تخریج کرتے، پھر سندِ حدیث پر بحث ہوتی اور پھر شرح حدیث، اگر حدیث میں کوئی ظاہری تعارض یا مختلف فیہ مسئلہ ہوتا، وہ بیان ہوتا اور آخر میں جو مسئلہ اقرب الی الحق یعنی حق کے قریب ہوتا، وہ بیان کیا جاتا، یہ تھا ان کا اندازِ تدریس۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا شیخ صاحب پڑھاتے ہوئے اپنے حافظے سے کام لیتے تھے یا کسی کتاب سے مدد لیتے؟ مولانا عبدالغفار حسن فرماتے ہیں :
’’اکثر و بیشتر اپنے حافظے سے مدد لیا کرتے تھے اور بعض اوقات ان حواشی سے بھی جو انھوں نے کتاب کے کناروں پر خود تحریر کیا ہوتا، ان سے بھی رجوع کرتے......‘‘[1]
[1] ماہنامہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ برمنگھم (نومبر، دسمبر ۱۹۹۸ء، ص: ۱۵)