کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 253
وقت قضائے حاجت کے لیے باہر نکالا جاتا تھا، پیشاب کے لیے ایک مٹی کی چھوٹی سی ناند رکھی ہوئی تھی، جو پیشاب سے بھر جاتی تھی تو سارا کمرہ گندہ اور متعفن ہو جاتا تھا۔ تین دن میں صرف ایک وقت حوالاتیوں کی چیخ و پکار کے بعد پولیس نے انھیں چنے ابال کر کھانے کو دیے، طلبا بیچارے صبح کے وقت جب کرفیو کھلتا تھا تو کچھ روٹیاں پہنچا جاتے تھے، مگر دوسرے حوالاتیوں کے گھروں سے کچھ نہیں آتا تھا، اس لیے وہ سب بیچارے بھی بھوکے تھے، انہی چند روٹیوں کو ٹکڑے ٹکڑے بانٹ کر تسکین کر لیا کرتے تھے۔
’’ایسی گندی اور بدبو دار جگہ میں آپ کو لیٹنے کی ہمت نہ ہوتی۔ جب نیند کے غلبے سے مجبور ہو جاتے تھے تو ایک کونے میں ٹیک لگا کر سہارا لے لیا کرتے تھے اور کچھ دیر تک غفلت ہو جاتی تھی۔ حوالاتیوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جو اس سے پہلے جیل جاچکے تھے اور وہاں کی زندگی کا تجربہ رکھتے تھے، انھوں نے آپ سے کہا کہ مولوی صاحب! تھانے دار سے کہیے کہ ہم لوگوں کو جیل بھیج دیا جائے، وہاں آرام رہے گا، چنانچہ سب لوگوں نے باتفاق اور باصرار مطالبہ کیا کہ ہم کو یہاں سے نکال کر جیل بھیج دیا جائے، اس کے بعد سب کو دہلی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔
’’ایک مہینے کے بعد جب عدالتیں کھلیں تو ان زندانیوں کا مقدمہ پیش ہوا، عدالت کے سامنے جب آپ لائے گئے تو عدالت نے آپ کا نام لے کر کہا کہ آپ پر چھے ہندوؤں کے قتل کا الزام ہے، اتنا کہہ کر عدالت خاموش ہوگئی اور آپ بھی چپ رہے۔ دو منٹ کی خاموشی کے بعد عدالت نے خود کہا، لیکن پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے