کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 25
عینی شاہد ہوں ۔
پاکستان کی جامعہ سلفیہ آج سے ساٹھ سال پیشتر ۴؍ اپریل ۱۹۵۵ء کو مرکزی جمعیت کی تیسری کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں قائم ہوئی تھی (یعنی جامعہ سلفیہ بنارس کے قیام سے آٹھ سال قبل) میں اس وقت ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا ایڈیٹر تھا، میں نے اس اخبار میں اس کے متعلق چھوٹی بڑی ہر چیز کی وضاحت کی تھی اور بتایا تھاکہ:
مرکزی دار العلوم قائم کرنے کا فیصلہ کب کیا گیا؟ اس کا نام جامعہ سلفیہ مولانا محمد حنیف ندوی نے تجویز کیاتھا، تاکہ اس کے فارغین اس نام کی وجہ سے ’’سلفی‘‘ کہلائیں ۔ (لیکن نہیں کہلاتے، شاید اس لیے کہ نئے دور کے ان علماء وطلباء کو سلفی کہلاتے ہوئے حیا آتی ہے اور الحیاء شعبۃ من الایمان)
جامعہ سلفیہ کے لیے قصور میں اچھی خاصی زمین دینے کی پیش کش میاں محمود علی قصوری بار ایٹ لانے کی۔ وہاں مسجد تعمیر کرانے اور کتب خانے کے لیے رقم دینے کا بھی کہا، لیکن بہ وجوہ ان کی پیش کش پر عمل نہ کیا گیا۔
مولانا سید محمد داود غزنوی نے لاہور میں اپنے خاندانی دار العلوم تقویۃ الاسلام کی بلڈنگ اس کی لائبریری سمیت جامعہ کے قیام کے لیے عطا کرنے کی پیش کش کی، اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔
جی ٹی روڈ پر لاہور سے تیرہ چودہ میل کے فاصلے پر زمین خریدنے کا منصوبہ بنا اور زمین دیکھی بھی گئی۔ یہ فقیر بھی زمین دیکھنے والے بزرگانِ ذی مرتبت کے ساتھ گیا تھا، لیکن زمین خریدی نہ گئی۔
متحدہ پنجاب کے آخری وزیر اعلیٰ ملک خضر حیات خاں ٹوانہ کی دو مربعے زمین (واقع لائل پور سمندری روڈ) خریدنے کی کوشش ہوئی۔ ان سے خود مولانا