کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 230
’’شیخ عطاء الرحمن دس بجے تک پہنچے۔ شب دیگ، باقر خانیاں ، کھیر، آم کے ٹوکرے اور برف کی سلیں ساتھ تھیں ۔ طلبا مغموم بیٹھے تھے۔ شیخ صاحب کو ساری حکایت معلوم ہوئی تو پیشانی پر شکن تک نہ آئی۔ ان کے بیٹے آنریری مجسٹریٹ تھے، اس لیے اچھی جان پہچان تھی۔ سیدھے متعلقہ افسر کے پاس پہنچے اور دو گھنٹے میں طلبا کو رہا کرا کر لے آئے۔ لڑکوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سارا دن کھیل کود ہوتا رہا، لیکن سب حیران تھے کہ شیخ صاحب جیسے سخت گیر انسان نے قطعاً کوئی سرزنش نہیں کی۔ یہ دن تو خیریت سے گزرا۔
’’اگلے دن شیخ صاحب مدرسے تشریف لائے اور منشی دفتر سے کہا کہ رجسٹر لاؤ اور جن جن طلبا نے مچھلیاں پکڑنے میں حصہ لیا تھا، ان کے نام خارج کر دو، ان سب سے کتابیں لی گئیں اور انھیں چلتا کیا گیا۔ گویا انھوں نے خوشی کو کرکرا نہیں کیا، لیکن سزا دینے سے بھی نہ چوکے۔ یہ طلبا زیادہ تر اونچی کلاسوں کے تھے، جو ایک یا دو سال بعد فارغ ہونے والے تھے۔ میرے خیال میں اگر انھیں اخراج کے بجائے کوئی اور سزا دی جاتی تو وہ زیادہ مناسب تھا، لیکن شیخ عطاء الرحمن ڈسپلن کے بہت پابند تھے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے عادی نہ تھے۔‘‘[1]
چونکہ ذمے داران کے پیشِ نظر اصل چیز تعلیم و تربیت تھی، اس لیے وہ اس تعلق سے کوئی کمی یا خرابی برداشت نہیں کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر ہمیشہ کیفیت پر رہتی تھی، کمیت پر نہیں ۔
مولانا محمد اعظمی صاحب کا یہ بیان پہلے نقل کیا جا چکا ہے:
[1] مولانا عبدالغفار حسنــ، حیات و خدمات (ص: ۷۲۔ ۷۳)