کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 229
صاحبان بھی متنبہ رہیں ۔‘‘[1] طلبا کے اخراج سے متعلق مولانا عبد الغفار حسن صاحب کا بیان کردہ درج ذیل واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں : ’’شیخ عطاء الرحمن طلبا کو سال میں ایک دفعہ سیر و تفریح کے لیے ضرور لے جایا کرتے تھے۔ یا تو اوکھلے (کنارِ جمنا) اور یا پھر قطب صاحب کی لاٹ جانا ہوتا تھا۔ بسیں کرائے پر لی جاتی تھیں ۔ ایک مرتبہ بس والوں نے کرایہ زیادہ مانگا تو پروگرام یوں بنایا گیا کہ پیدل نئی دہلی کے اسٹیشن تک جائیں اور پھر وہاں سے بہ ذریعہ ایکسپریس ٹرین، اوکھلے۔ بیچ میں ایک اسٹیشن نظام الدین اولیا پڑتا تھا۔ تقریباً سو طلبا ہوں گے۔ اساتذہ میں مولانا نذیر احمد ساتھ تھے۔اوکھلے تک آدھ گھنٹے کا سفر تھا۔ پہنچے تو رات کا ایک بج رہا تھا۔ لڑکوں نے اسٹیشن پر ہی دھرنا ڈال لیا۔ مولانا کو تو آرام کا موقع مل گیا۔ طلبا نے شعر و شاعری کی محفل جما لی۔ کچھ دیر بعد اسٹیشن ماسٹر آیا اور کہا کہ بمبئی کی ٹرین آرہی ہے، اس لیے پلیٹ فارم خالی کردو۔ چنانچہ ہم اسٹیشن سے نکلے اور صبح کی نماز تک چلتے چلاتے سیر گاہ تک پہنچ گئے۔ صبح کا سہانا وقت ،جمنا کا کنارا، پانی اتنا زیادہ نہ تھا اور مچھلیاں صاف نظر آرہی تھیں ۔ دو بنگالی طلبا نے دھوتیاں اڑس لیں اور پانی میں اتر گئے۔ بند کی طرف بیس پچیس طلبا کھڑے ٹوکریو ں میں مچھلیاں جمع کرنے لگے۔ کچھ طلبا پنجاب سے تھے۔ نہری پولیس کو خبر ہوگئی تو وہ ڈنڈے اٹھائے موقع پر نمودار ہوگئے اور ان طلبا کو مچھلیوں کی ٹوکری سمیت گرفتار کرکے لے گئے۔
[1] مجلہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر (۱۲؍ دسمبر ۱۹۲۴ء، ص: ۱۳)