کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 228
اس سے خوش نہیں ۔ میں یہ کام صرف رب کی رضا مندی کی طلب میں کر رہا ہوں ۔ خدا قبول فرمائے اور مجھے مزید نیکیوں کی توفیق عطافرمائے کہ میں اس کی ہر راہ میں اس کی دی ہوئی دولت صَرف کروں ۔ یہ خداداد چیز ہے۔ فی سبیل اﷲ کام آئے، اسی میں میری خوشی ہے۔ طلبا کو مدرسے کے وقت میں مدرسے ہی میں حاضر رہنا چاہیے۔ نماز کے لیے جب آپ مسجد میں جائیں تو خشوع و خضوع، ادب و وقار سے جائیں ۔ مسجد میں آدابِ مسجد کے خلاف کوئی بات نہ ہونے پائے۔ اسباق دل لگاکر پڑھیں ۔ اخلاقی باتوں کا پورا لحاظ رکھیں ، جو پڑھیں اس کا مجسم عملی نمونہ بن جائیں ۔‘‘[1]
اِخراج:
تمام تر نگرانی اور سختی کے باوجود اگر کوئی طالب علم سر کشی ہی پر آمادہ رہتا اور عفو و درگزر کے تمام مراحل سے گزر چکا ہوتا، پھر بھی اس کے اندر اصلاح کی امید نظر نہ آتی تو ایسے طالب علم کو مدرسے سے خارج کر دیا جاتا اور اس سلسلے میں کسی طرح کی رعایت نہ کی جاتی، اس کی وجہ سے طلبا بہت محتاط زندگی گزارتے تھے اور مدرسے کے نظام و قانون کی ادنی مخالفت سے بھی حتی الامکان پرہیز کرتے تھے۔
جن طلبا کا اخراج عمل میں آتا، ان کے نام رسائل و جرائد میں شائع کرا دیے جاتے اور دوسرے مدارس کو اس اعلان کے ذریعے سے باخبر کر دیا جاتا کہ فلاں فلاں طلبا مدرسہ رحمانیہ سے خارج کیے گئے ہیں ، تاکہ ان طلبا کو اپنے یہاں داخل کرنے سے دوسرے مدارس بھی گریز کریں ۔ مجلہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امرتسر کے ایک شمارے میں بعض طلبا کے اخراج کی خبر یوں شائع ہوئی ہے:
’’مدرسہ رحمانیہ دہلی سے بعض طلبا کو بدچلنی کی وجہ سے خارج کیا گیا ہے: عبدالصمد، داود احمد، اصغر علی، کبیر الدین۔۔۔ دوسرے مدارس کے مہتمم
[1] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (۱۵؍ اگست ۱۹۳۹ء، ص: ۱۵)