کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 226
ڈی بڑی تیز تھی، ان کو پتا چلا تو وہ بھی سینما آگئے اوراندر لڑکوں کو بیٹھے دیکھ کر کہنے لگے: السلام علیکم! بھئی بڑی اچھی تبلیغ کر رہے ہو!!‘‘ [1]
نماز کا اہتمام اور حاضری:
مدرسے میں باقاعدہ پنج وقتہ نمازوں کی حاضری ہوتی تھی اور غیر حاضر پائے جانے والے طالب علم سے باز پرس ہوتی اور اس پر سختی کی جاتی تھی۔ مہتمم صاحب خود بھی روزانہ فجر کی نماز سے قبل مدرسے پہنچ جاتے تھے اور دارالاقامہ میں گھوم گھوم کر طلبا کو جگاتے تھے۔
مدرسے کے ایک زائر مولوی عبداللطیف صاحب فرماتے ہیں :
’’ میں مدرسہ رحمانیہ میں قریب بیس یوم کے رہا۔ الحمد للہ اتنے عرصے میں مسجد کو مصلیان یعنی طلبا سے مملو پایا۔ پانچ وقت بعد نماز کے سنت کے مطابق حاضری ہوتی ہے۔ سنت کے مطابق اس لیے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد فرماتے: ’’أفلان شاھد؟ أفلان شاھد؟‘‘[2] ’’کیا فلاں حاضر ہے؟ فلاں حاضر ہے؟‘‘ نیز مدرسہ مذکورہ میں آٹھ مدرسین نہایت جدوجہد و سعی بلیغ کے ساتھ درس دیتے ہیں ۔۔۔۔‘‘ عبداللطیف مدرس مدرسہ محمدیہ واقع جامع مسجد شاہی، اٹاوہ۔[3]
مولانا محمد اعظمی صاحب فرماتے ہیں :
[1] مولانا عبدالغفار حسن، حیات و خدمات (ص: ۴۳۱)
[2] حدیث میں ’’أفلان شاھد‘‘ کے بجائے ’’أشاھد فلان‘‘ ہے۔ حدیث متعدد مصادر میں مروی ہے۔ مثلا سنن ابی داود (رقم الحدیث: ۵۵۴) سنن الدارمی (رقم الحدیث: ۱۳۰۵) صحیح ابن خزیمہ (رقم الحدیث: ۱۴۷۶)۔۔۔ وغیرہ۔ ان میں سے بعض روایتوں پر ’’حسن‘‘ کا اور بعض پر ’’صحیح‘‘ کا حکم موجود ہے۔
[3] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (یکم اکتوبر ۱۹۳۲ء، ص: ۲)