کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 225
کرنی چاہیے تھی۔ اس کے بعد موصوف نے سائیکل اٹھائی اور مدرسے کے مہتمم شیخ عبدالوہاب صاحب کے گھر تشریف لے گئے، جو مدرسے سے کافی دور اور پرپیچ راستوں کے بعد واقع تھا۔ واپسی کے بعد آپ نے خوش خبری دی کہ مہتمم صاحب نے تمھاری غلطی معاف کر دی ہے، البتہ تنبیہ فرمائی ہے کہ آیندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔[1] واضح رہے کہ اس قسم کی سفارشیں بہت محدود پیمانے پر اور شاذ و نادر ہی کی جاتی تھیں ۔ مولانا نذیر احمد صاحب بہ ذات خود اصول کے بڑے پابند تھے اور طلبا کے ساتھ کسی طرح کی نرمی اور رعایت کو روا نہیں رکھتے تھے۔ مگر چونکہ مجاز صاحب کئی سالوں میں مدرسے کے ایک پابند اور محنتی طالب علم کی شبیہ بنا چکے تھے اور اساتذہ کے دل میں بھی جگہ بنا چکے تھے، ساتھ ہی انجمن اور بعض دیگر امور کا نظم ونسق بھی سنبھالے ہوئے تھے، اس لیے مولانا املوی رحمہ اللہ اچھی طرح سمجھتے رہے ہوں گے کہ بہ درجہ مجبوری اور معقول عذر ہی کی وجہ سے اس طالب علم کو وقت سے پہنچنے میں تاخیر ہوئی ہوگی اور اس میں کسی شرارت یا چار سو بیسی کا کوئی دخل نہ ہوگا۔ لہٰذا ایسے طالب علم کو مدرسے سے خارج کیا جانامصلحت کے خلاف ہے۔ بہرحال اس واقعے سے مدرسے کے نظام کی ہیبت اور اس کے اصول و قوانین کی سنجیدگی کے ساتھ تعمیل وتنفیذ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ طلبا کی نگرانی اور مہتمم صاحب کی اس سلسلے میں فکر مندی کا اندازہ لگانے کے لیے مولانا عبد الغفار حسن رحمانی کا درج ذیل بیان بھی پڑھیے: ’’مدرسے کے مہتمم شیخ عطاء الرحمن نے ایک دفعہ چند طلبا کو تبلیغ کے لیے کہیں بھیجا۔ طلبا تبلیغ کے بجائے سینما چلے گئے۔ شیخ صاحب کی سی آئی
[1] استاذ الاساتذہ مولانا عبدالحکیم مجاز اعظمی، حیات و خدمات (ص: ۹۳۔ ۹۵) مقالہ فضیلت از طاہر جمال مئوی سلفی۔