کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 216
اور اساتذہ کو دوسرے مشاغل کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہ تھی اور نہ انھیں اس کی اجازت تھی، حتی کہ دینی و تبلیغی اجلاس و اجتماعات میں بھی دونوں کی شرکت (باستثناء چند مخصوص حالات) سخت ممنوع تھی، نہ کسی استاذ کو اجازت تھی کہ وہ کسی جلسہ یا کانفرنس کی دعوت قبول کرے اور نہ طلبا ہی کو ایسے اجتماعات میں جانے دیا جاتا تھا، اس میں کئی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں ۔
’’اول یہ کہ طلبا کا درس متاثر نہ ہو۔ عموماً اجلاس میں شرکت کی تیاری، پھر سفر سے واپسی کے بعد تکانِ سفر اور اجلاس کا خمار باقی رہنا ایک فطری امر ہے، جس سے فرائض منصبی کو ادا کرنے میں فرق آتا ہے، اس نقصان سے لڑکے محفوظ رہتے تھے۔
’’دوسرے یہ کہ اجلاس میں اعزاز واکرام اور مالی منفعت کے مقابلے میں وہ اپنے موجودہ پیشہ کو کمتر اور ہیچ نہ سمجھنے لگیں ۔
’’تیسرے یہ کہ تدریسی اسٹاف کے درمیان رقابت اور حسد نہ پیدا ہو اور کوئی یہ کہنے یا سوچنے پر نہ مجبور ہو کہ فلاں صاحب مزے سے تقریریں کرتے پھر رہے ہیں اور اپنا ٹی اے، ڈی اے بنا رہے ہیں اور ہم یہاں مدرسے میں سڑ رہے ہیں ۔
’’چوتھے یہ کہ اساتذہ پوری دل جمعی اور ذہنی یک سوئی سے اپنے سبق کی تیاری کے بعد کلاس میں جائیں ، اسی طرح طلبا کی شرکت بھی اس لیے ممنوع تھی کہ اجلاس میں شب بیداری کی وجہ سے صبح سبق میں جی نہیں لگے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اجلاس میں شرکت کے بہانے کچھ لڑکے کھیل تماشے یا سینما دیکھنے چلے جائیں اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہوں ۔ یہ چند