کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 215
کمیت نہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ درجات علیا تک پہنچتے پہنچتے طلبا کی تعداد بہت قلیل ہو جاتی تھی، یہاں تک کہ بعض دفعہ سنۃ الشہادۃ میں ایک یا دو طلبا باقی رہ جاتے تھے.....‘‘[1] مولانا عبد الرؤف رحمانی لکھتے ہیں : ’’...... میاں صاحب نے تعلیمی نظام کو بڑاہی چوکس کر رکھا تھا۔ پابندی، وضع قطع کا بڑا لحاظ تھا، نمازوں کی پابندی کے لیے حاضری لگی ہوئی تھی۔ تعلیم و تربیت کے بہترین مواقع نصیب تھے.....‘‘[2] جناب فاروق اعظمی صاحب مہتمم مدرسہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’۔۔۔ طلبا و اساتذہ کے خور و نوش اور رہایش کا بہترین انتظام فرماتے تھے۔ غریب و یتیم اور مسکین طلبا کے ساتھ خصوصی محبت سے پیش آتے تھے اور ان کو مختلف مراعات بہم پہنچاتے تھے۔ جاڑے کے زمانے میں گادی تکیہ اور دو دو لحاف ایک طالب علم کو دیے جاتے تھے۔ مختلف قسم کے تحائف، انعامات اور سہولیات سے ان کو اس طرح نوازا جاتا کہ وہ ہر طرح کی فکروں سے آزاد ہو کر صرف مدرسہ رحمانیہ کے ہوکر رہ جاتے اور پوری دلجمعی اور ذہنی یک سوئی سے علم حاصل کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ دارالحدیث رحمانیہ نظم و نسق، درس و تدریس، تعلیم و تربیت کا ایسا مینار بن گیا تھا، جس کی ضیاپاشی سے شرق وغرب اور شمال وجنوب سبھی جگمگا رہے تھے۔‘‘[3] اعظمی صاحب آگے ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’مدرسے میں پڑھنے اور پڑھانے کا ایسا ماحول اور مزاج بنا ہوا تھا کہ طلبا
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ء، ص: ۶۸) [2] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (اگست ۱۹۹۲ء، ص: ۱۶۔ ۱۸) [3] ایضاً (اکتوبر ۱۹۸۴ء، ص: ۲۲)