کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 214
باب نمبر 17: سہولیات کا اثر اور نتیجہ طلبا کو فراہم کی جانے والی یہ سہولیات و تشجیعات ان کو ہر طرح سے بے فکر ہوکر تعلیم میں لگے رہنے کے لیے ہی دی جاتی تھیں ، ان سہولیات کی فراہمی کے بعد ان سے تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ محنت لی جاتی تھی اور ان کو خوب صیقل کر دیا جاتا تھا، ان سے کسی طرح کی دینی و اخلاقی کمزوری کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ تربیتی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی گرفت کی جاتی تھی بہ وقتِ ضرورت سزا دی جاتی تھی اور ’’آخر الدواء الکي‘‘ کے تحت انھیں مدرسے سے خارج بھی کیا جاتا تھا۔ والد صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس مدرسے کا بنیادی نصب العین یہ تھا کہ اس کا فیض یافتہ سچا پکا عالمِ دین ہو۔ علم و عمل میں اتنی صلاحیت و اہلیت کا مالک ہو کہ جس علمی میدان میں عملی زندگی اختیار کرے، اس میں خود اعتمادی کے ساتھ کامیاب رہے، چنانچہ یہ وصف اس کے فضلا میں موجود ہوتا تھا، اس مقصد کے لیے تعلیم و تربیت کا سخت نظام نافذ تھا، اس پر عمل میں کوئی ادنی کوتاہی یا بے پروائی ناقابلِ برداشت ہوتی تھی، چونکہ یہ مدرسہ شخصی تھا، اس لیے کسی معاملے میں دوسروں کی مداخلت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس سخت معیاری تعلیم کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ طلبا و فارغین کی کثرت و قلت اس کے معیار کو کسی طرح متاثر نہیں کرتی تھی۔ اصل چیز کیفیت ہوتی تھی،