کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 21
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ میں نے اپنی ایک کتاب ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ میں حضرت حافظ عبداﷲ روپڑی پر طویل مضمون لکھا ہے۔ یہ کتاب کئی سال پہلے پاکستان میں شائع ہوئی تھی، جو میری متعدد کتابوں کی طرح ہندوستان میں بھی شائع ہوگئی ہے۔ حافظ صاحب کو مدرسہ رحمانیہ کا ممتحن مقرر کیا گیا تھا۔ میں نے ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ میں لکھا ہے کہ مدرسہ رحمانیہ ۱۹۱۷ء میں جاری ہوا تھا۔ اس وقت مجھے اس کے اجرا کی صحیح تاریخ کا علم نہیں تھا۔ ایک دوست سے پوچھا تو انھوں نے ۱۹۱۷ء بتایا اور میں نے یہی لکھ دیا۔ (صفحہ: ۲۷۰) مولانا اسعد اعظمی نے اپنی اس کتاب ’’مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ‘‘ میں اس غلطی (یا سہو) کی نشان دہی کی ہے۔ اس پر میں ان کا شکر گزار ہوں ۔
کچھ عرصہ قبل میری ایک کتاب ’’روپڑی علماے حدیث‘‘ کے نام سے چھپی ہے، جو ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں حضرت حافظ عبداﷲ روپڑی کے حالات تفصیل سے مرقوم ہیں ۔ حافظ صاحب کے علاوہ اس خاندان کے دیگر علماے کرام اور ان کے تلامذہ و متاثرین کا تذکرہ بھی کتاب میں کیا گیا ہے۔ کتاب کے صفحہ (۲۵) پر مدرسہ رحمانیہ کے اجرا کا بھی ذکر آیا ہے، وہاں میں نے اس کے اجرا کا سال ۱۹۲۱ء لکھا ہے، جو بالکل صحیح ہے۔
مدرسہ رحمانیہ کے بارے میں ایک اور بات عرض کرنا ضروری ہے، جس کا مولانا اسعد اعظمی نے ذکر نہیں کیا، وہ یہ کہ تقسیمِ ملک کے زمانے میں مولانا ابو الکلام آزاد نے دہلی کے بعض اہلِ حدیث حضرات سے رابطہ کر کے فرمایا تھا کہ مدرسہ رحمانیہ میں اگر کسی طرح چھوٹے بڑے پیمانے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو یہ محفوظ رہے گا۔ لیکن جماعت کے بہت سے اہلِ علم دہلی سے نکل گئے تھے اور جو موجود تھے، وہ پریشانی اور مایوسی کی گرفت میں تھے۔ تاہم اس کے باوجود مولانا آزاد نے مدرسے کے ایک حصے میں مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی کو بٹھا دیا اور چند طلبا بھی