کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 209
سال تھی.......‘‘[1]
مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی نے اپنی فراغت کے سال کے آخری جلسہ (تقسیمِ اسناد و مقابلہ خطابت) کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’اس سال کا سارا انعام مجھے ملا تھا، گھڑی بھی ملی تھی، جب میں جبہ وغیرہ پہن کر آیا۔۔۔۔‘‘[2]
ایک دوسرے مقام پر موصوف لکھتے ہیں :
’’ہمارے مدرسہ رحمانیہ میں طلبا کو نقدی انعام دینے کا بھی دستور تھا۔ امتحان کا نتیجہ سنایا جاتا اور نقد روپیہ، گھڑی اور جبہ و دستار کا انعام دیا جاتا تھا۔ ہم بھی اپنے زمانے میں جماعت میں اول آتے رہے اور انعامات سے نوازے گئے۔
’’اس دن میں شیخ عطاء الرحمن صاحب کی دعوت پر دلی کے تمام مدارسِ عربیہ کے علما حتی کہ جامعہ ملیہ عربیہ دہلی کے بڑے بڑے عربی ٹیچر خواجہ اسلم صاحب جے راج پوری، خواجہ عبدالحی صاحب فاروقی، محترم ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب شیخ الجامعہ جو بعد کو ہندوستان کے صدر جمہوریہ کے منصب پر فائز ہوئے، وہ بھی تشریف لاتے تھے۔ میاں صاحب اس دن بڑی شان دار و پُرتکلف دعوت کرتے تھے۔ تمام مدارسِ عربیہ کے مہمانوں کو اور طلبا و اساتذہ کو بہترین و پرتکلف کھانا کھلاتے تھے۔‘‘[3]
مولانا عبدالغفار حسن رحمانی بیان کرتے ہیں :
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (جولائی ۱۹۹۳ء، ص: ۱۴۔ ۱۵)
[2] ماہنامہ ’’السراج‘‘ نیپال، خطیب الاسلام نمبر (ص: ۴۶۲۔ ۴۶۳)
[3] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (اگست ۱۹۹۲ء، ص: ۱۷)