کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 208
’’ہر امتحان میں اول رہے اور سال آخر میں تمام مدرسے میں اولیت و اولویت کی وجہ سے انعام میں صحیح بخاری اور ۴۰؍ روپیہ نقد انعام سے سرفراز ہوئے۔ یہ تکمیل ۱۵؍ شعبان ۱۳۴۶ھ کو ہوئی۔‘‘[1] مولانا آزاد رحمانی نے اس کے علاوہ ایک جیبی گھڑی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔[2] شیخ الحدیث علامہ عبیداﷲ رحمانی رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی مولانا عبید الرحمن بھی رحمانیہ سے فارغ تھے اور فراغت کے بعد اسی مدرسے میں مدرس مقرر ہوئے تھے، ان کے بارے میں مولانا نوشہروی لکھتے ہیں : ’’دارالحدیث رحمانیہ کے امتحانِ حدیث میں اول آئے اور مندرجہ ذیل انعامات حاصل کیے: یعنی تئیس (۲۳) روپیہ، ایک گھڑی، ایک نجدی چغہ، ایک سنہری عقال۔‘‘[3] واضح رہے کہ موصوف کی فراغت ۱۳۵۶ھ میں ہوئی ہے۔ مولانا عبدالحلیم ناظم رحمانی جو رحمانیہ کے فارغ اور پھر وہاں کے مدرس تھے اور رسالہ محدث کے اول مدیر تھے، ان کے بارے میں ان کے تذکرہ نگار نے لکھا ہے: ’’...... آٹھویں جماعت میں پورے مدرسے میں اول آئے، اس لیے انعام میں آپ کو ایک چاندی کا میڈل اور عمدہ گھڑی دی گئی۔ یہ میڈل یا تمغہ مرحوم عبدالستار میونسپل کمشنر کی طرف سے ہر اس خوش نصیب طالب علم کو دیا جاتا تھا، جو آٹھویں جماعت میں درجۂ اول میں پاس ہوتا تھا۔ الحاصل مرحوم ۱۹۳۱ء میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوگئے۔ عمر اکیس (۲۱)
[1] تراجم علماے حدیث ہند (ص: ۴۱۲) [2] ملاحظہ ہو: اہلِ حدیث اور سیاست، مقدمہ (ص: ۱۳) [3] تراجم علماے حدیث ہند (ص: ۴۰۹)