کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 207
رسالہ ’’محدث‘‘ کے جنوری ۱۹۴۷ء کے شمارے میں مدرسے کے سہ ماہی امتحان اور تعطیل وغیرہ کی خبر شائع ہوئی ہے، جس کے آخر میں ہے:
’’....نتیجہ مجموعی حیثیت سے بفضلہ تعالیٰ حوصلہ افزا ہے۔ جماعت میں اول آنے والے ہر طالب علم کو جناب مہتمم صاحب مدظلہ العالی کی طرف سے دو دو روپے نقد انعام دیے گئے۔ فبارک اللّٰہ فیہ وأحسن إلیہ‘‘[1]
مولانا عبدالرحمن نحوی (استاد مدرسہ فیض عام مؤ) کے سوانح نگار نے لکھا ہے:
’’ان کے باقیات صالحات میں مختلف علوم کی بے شمار کتابیں اور ان میں ہمہ تن استغراق میدانِ علم اور سلامتِ ذوق کا ثبوت ہیں ، ورثہ دینی اور خزانہ علمی کے طور پر آج بھی محفوظ ہیں ، جن میں علامہ سیالکوٹی کی تصنیفات روحانی کشش ثقل بتاتی ہیں تو صحیح بخاری کی جلدیں مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے قدر جوہر شناس کی علامت ہیں ، جو فراغت کی تقریب اور ہم درسوں میں اولیت کے اعتراف میں بطور انعام ملی تھیں ، جس پر فراغت ۱۵؍ شعبان ۱۳۴۱ھ درج ہے۔‘‘[2]
مولانا حکیم محمد بشیر مبارک پوری رحمانی کے بارے میں مولانا نو شہروی نے لکھا ہے:
’’۷؍ شعبان ۱۳۴۵ھ کو مدرسے (رحمانیہ) سے علاوہ جبہ و دستار اور نقدی انعام کے سندِ تکمیل عنایت فرمائی گئی اور شیخ الحدیث نے اپنا اجازہ مرحمت فرمایا۔‘‘[3]
مولانا نذیر احمد صاحب املوی کے بارے میں نوشہروی صاحب نے لکھا ہے:
[1] رسالہ ’’محدث‘‘ دہلی (جنوری ۱۹۴۷ء، ص: ۱۱)
[2] مجلہ ’’آثار جدید‘‘ مئو (دسمبر ۲۰۰۴ء، ص: ۲۴)
[3] تراجم علماے حدیث ہند (ص: ۴۱۰، ۴۱۱)