کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 20
کے نتیجے کو فارسی میں ’’جویندہ یابندہ‘‘ اور عربی میں ’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘ کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ دنیا کے کاموں میں کوئی کام انجام دینا ناممکن نہیں ، ضرورت صرف اﷲ کا نام لے کر جہانِ تگ و دو میں قدم زن ہونے کی ہے، اگر ایسا ہو جائے تو ناممکنات کی دیواریں منہدم اور راستے کی مشکلات ختم ہوجاتی ہیں ۔
آزادیِ برصغیر کے اِعلان کے فوراً بعد فسادات کے ملک گیر ریلے میں انسانی خون کا جو مینہ برسا، اس سے دار الحکومت دہلی کے چہرے کا وہ غازہ اُتر گیا تھا، جو دینی مدارس کی شکل میں اس کی خوب صورتی کا ضامن اور اسلامی تہذیب کا زریں عنوان تھا۔ اس نے مدرسہ رحمانیہ کو بھی اپنی زد میں لے لیا اور دہلی کی سرزمین سے اس کا نام قطعی طور پر کھرچ دیا گیا۔ اس کا ظاہری وجود جو ختم ہوگیا تھا، ذی ہمت مولانا اسعد اعظمی نے اس کے نشانات کو تلاش کرکے نہایت ہنرمندی سے اس کتاب کے صفحات پر مرتسم کر دیا ہے۔
اس کا مطالعہ قارئین کے لیے باعثِ عبرت بھی ہوگا اور ان کی معلومات میں اضافے کا موجب بھی۔ یہ کتاب برصغیربالخصوص اہلِ حدیث حضرات کی تدریسی تاریخ کا نہایت اہم حصہ ہے اور ان کی علمی جدوجہد کا زریں باب۔
کتاب پہلی مرتبہ مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن (یو۔ پی ہندوستان) نے فروری ۲۰۱۳ء میں شائع کی تھی، جو مولانا صلاح الدین مقبول احمد اور جناب مرتب کے والدِ مکرم مولانا محمد اعظمی کے مقدمات سے مزین ہے۔ اب اسے ہمارے دوست مولانا عارف جاوید محمدی کے قائم کردہ اشاعتی ادارے ’’دار ابی الطیب‘‘ (حمید کالونی گِل روڈ گوجرانوالہ) کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ اس فقیر نے اس کے مختلف حصوں کی تبویب کر دی ہے، تاکہ معزز قارئین پر اس کا ہر حصہ واضح ہو جائے اور اس کے مندرجات کے الگ الگ تمام اجزا کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔