کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 19
اولین طلبا کون تھے؟ اسلوبِ تدریس کیسا تھا؟ لائبریری کیسے قائم ہوئی؟ اساتذہ و طلبا کی رہایش کا کیا انتظام تھا؟ مطبخ کا سلسلہ کیسا تھا؟ بانیانِ مدرسہ یا مہتمم اس کی کس طرح نگرانی کرتے تھے اور اساتذہ و طلبا کے ساتھ ان کا سلوک کس قسم کا تھا؟ مدرسے کے کتنے کمرے تھے؟ تقریروں کے لیے ہال کتنا بڑا تھا؟ ممتحن کون بزرگ تھے اور طریقہ امتحان کیسا تھا؟ مسجد کہاں تھی؟ یہ سب باتیں تفصیل سے کتاب میں بیان کر دی گئی ہیں ۔
مولانا اسعد اعظمی کو اللہ تعالیٰ خوش رکھے کہ انھوں نے نہایت محنت سے چھوٹی بڑی وہ تمام تحریریں جمع فرما دیں ، جو مدرسہ رحمانیہ کے متعلق انھیں کہیں سے ملیں اور مختلف اوقات میں تشریف لانے والے ان مہمانانِ گرامی کے تاثرات کا بھی سراغ لگا لیا، جن کا انھوں نے مدرسے کے بارے میں اظہار کیا تھا۔
مدرسہ جولائی ۱۹۲۱ء میں قائم ہوا تھا، جب کہ ملک کے حالات نہایت پُرسکون تھے اور دہلی میں دینی مدرسوں کی بہار آئی ہوئی تھی اور اگست ۱۹۴۷ء میں اس کی روح قبض ہوگئی، جب کہ ملک انتہائی افراتفری کا شکار تھا اور فسادیوں کے ہاتھوں دہلی کا سہاگ لٹ رہا تھا۔ مسجدوں میں ویرانی کے آثار ابھر آئے تھے اور مدرسوں کی رونق حالتِ نزع میں تھی۔ نہ کوئی جماعت کا اخبار تھا اور نہ اس کی تاریخ کو اجاگر کرنے کا کوئی ذریعہ۔ مدرسے کے بانیوں کو موت نے نگل لیا تھا اور اس کے منتظم ملک چھوڑ گئے تھے اور دنیا سے بھی رخصت ہوگئے تھے۔ ان انتہائی نامساعد حالات میں ۶۵ سال پہلے کے ختم شدہ مدرسے کی ستائیس سالہ تدریسی سرگرمیوں کا کھوج لگانا اور اس کے متعلق ایک ایک واقعہ تلاش کرنا بہ ظاہر ناممکن تھا، لیکن مولانا اسعد اعظمی نے کمر ہمت باندھی، مختلف دروازوں پر دستک دی اور سالہا سال کے طویل عرصے کی تاریکیوں میں چھپے ہوئے واقعات اجاگر کر کے کتابی شکل میں مرتب کر دیے۔ اس