کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 18
ہوئے ہیں اور تینوں وہابی۔ وہ تھے مولانا عبد العزیز میمنی، مولانا محمد سورتی اور مولانا عبد المجید حریری۔
ان تینوں کا کسی نہ کسی نہج سے مدرسہ رحمانیہ سے تعلق رہا۔ مولانا عبدالمجید حریری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ سعودی عرب میں آزاد ہندوستان کے پہلے سفیر مقرر کیے گئے۔ تقرری کے بعد وہ براستہ مصر سعودی عرب گئے تھے۔ مصر میں جامعہ ازہر کے اساتذہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان کے خالص عربی لہجے اور ادیبانہ طرزِ کلام سے جامعہ ازہر کے اساتذہ نہایت متاثر ہوئے۔
ان تینوں عظیم المنزلت حضرات کے تراجم میں نے اپنی ایک کتاب ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی اوّلیات‘‘ میں بیان کیے ہیں ۔ یہ کتاب دار ابی الطیب گوجرانوالہ کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ ہندوستان کے ممتاز عالم مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے اس پر طویل مقدمہ لکھا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ انھوں نے اس کا عربی میں ترجمہ بھی کر دیا ہے، لیکن یہ ترجمہ ابھی چھپا نہیں ۔
خوانندگانِ محترم نے ملاحظہ فرمایا کہ اس دار العلوم کے نام کے ساتھ نہ کلیہ کا لاحقہ ہے نہ جامعہ کا سابقہ۔ اسے صرف مدرسہ کہا گیا ہے، لیکن اس مدرسے کو اس قدر اہمیت حاصل ہوئی کہ اپنے عہد کے تمام کلیات و جامعات سے بازی لے گیا۔ اس کی وجہ بانیانِ مدرسہ کا اخلاص بھی تھا، مدرسین کی محنت بھی تھی، طلبا کی تحصیلِ علم میں لگن بھی تھی اور لوگوں کا یہ رجحان بھی تھا کہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلائی جائے۔
اس کتاب میں مدرسے کی تاریخ کے سلسلے کی ہر بات ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے۔ کب قائم ہوا؟ کیوں قائم ہوا؟ کس نے قائم کیا؟ اس کے قیام میں کن لوگوں کی کوششیں کار فرما تھیں ؟ اس کے محرک کون بزرگ تھے؟ زمین کیسے حاصل ہوئی؟ اس انتہائی سستے زمانے میں تعمیر پر کتنی رقم خرچ ہوئی؟ ابتدائی دور کے مدرسین کون تھے؟