کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 174
پھر مجبور ہوکر جنوری ۱۹۴۳ء میں ہم نے تا اختتامِ جنگ اس کی اشاعت ملتوی کر دینے کا فیصلہ کیا اور پونے دس سال تک مسلسل آپ کی خدمت کرنے کے بعد یہ کہتے ہوئے ہم آپ سے رخصت ہوئے تھے ؎
اب تو جاتے ہیں میکدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
’’خدا خدا کرکے محوریوں کی عبرت ناک شکست کے بعد جنگ ختم ہوگئی۔ گو ابھی تک جنگ کی لائی ہوئی پریشانیاں بہت حد تک باقی ہیں ، تاہم نسبتاً اب سہولت ہوگئی ہے، اس لیے احباب کے اصرار اور حالات کے تقاضے کی بنا پر ہم نے مناسب سمجھا کہ ’’محدث‘‘ دوبارہ جاری کر دیا جائے۔۔۔۔‘‘[1]
واضح رہے کہ اسی شمارے سے محدث کا سالانہ چندہ، جو صرف ڈاک خرچ کے لیے لیا جاتا تھا، چار آنے سے بڑھا کر ایک روپیہ کر دیا گیا۔ اس تعلق سے اس شمارے کے صفحہ (۹) پر ایک مفصل اعلان شائع کیا گیا ہے۔
محدث کے دوبارہ جاری ہونے پر اس شمارے میں ایک نظم بعنوان: ’’اے محدث خوب ہے شان مسیحائی تری‘‘ بقلم مولوی محمد خلیل صاحب ایمنؔ بستوی پشت ٹائٹل پر شائع ہوئی ہے، جس کے چند اشعا ر ملاحظہ ہوں :
پھونک دی مردہ دلوں میں پھر حیات جاوداں
اے محدث خوب ہے شان مسیحائی تری
جذب الفت کھینچ لایا تجھ کو آخر بزم میں
کیا کہوں ، ہے کس قدر پر کیف رعنائی تری
[1] رسالہ ’’محدث‘‘ دہلی (اپریل ۱۹۴۶ء، ص: ۴)