کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 170
شاہ صاحب کی مخلصانہ محبت آمیز میزبانی اور نعمت پور کی پرسکون جگہ بحالی صحت کی خاطر کچھ دنوں نعمت پور میں قیام کرنے پر بار بار آمادہ کر رہی ہے۔ اﷲ کرے کوئی صورت ایسی پیدا ہو جائے کہ میں نعمت پور میں کچھ دن قیام کرنے کے لیے وقت نکال سکوں ۔ حاجی عبد اﷲ و نورِ الٰہی صاحبان کو ان کا ہدیہ اور ٹکٹ قبول نہ کرنے پر رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے۔ ششہنیاں کے جلسے میں مولوی عبدالجلیل صاحب کرایہ و نذرانہ اور جلسہٗ تلسی پور میں محمد شفیع خاں پنچ کرایہ کے علاوہ اس سے زیادہ دے رہے تھے، لیکن میری طبیعت نے گوارا نہیں کیا اور اس پر میرا دل مطمئن ہے اور میں غایت درجہ اطمینان اور مسرت محسوس کر رہا ہوں اور تمنا رکھتا ہوں کہ آیندہ بھی اﷲ تعالیٰ مجھے اس سے محفوظ رکھے اور ہر مولوی کو ایسا ہی کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔۔۔۔‘‘ (۷؍ رجب ۱۳۶۵ھ)
اس مکتوب کے اختتام پر مجموعہ مکاتیب رحمانی کے مرتب نے جو توضیحی نوٹ لگایا ہے، اس میں خط میں مذکور باتوں کا پس منظر یوں بیان کیا ہے:
’’مولانا (امین) اثری جن دنوں نعمت پور کے مدرسے میں استاد تھے، انہی دنوں مولانا نذیر احمد املوی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث حاجی عبد السلام رحمہ اللہ کی معیت میں اچانک نعمت پور پہنچے۔ مدرسے کا معاینہ کیا اور رات میں ایک دینی جلسے سے خطاب کیا۔ واپسی پر آموں کا تحفہ اور سفر اخراجات کے لیے روپیہ دیا گیا تو آپ نے اپنے اصولوں کے پیشِ نظر قبول نہیں فرمایا۔ مولانا اثری حفظہ اللہ بتاتے ہیں کہ شیخ الحدیث تاحیات اپنے اس اصول پر قائم رہے۔ نذرانہ وغیرہ لینے سے کلی اجتناب فرماتے تھے۔‘‘[1]
٭٭٭
[1] مکاتیبِ رحمانی (ص: ۳۵۔ ۳۶)