کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 17
کی فہرست میں برصغیر کے نامور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین کا نام بھی آتا ہے، جو اس وقت دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پرنسپل تھے اور تقسیمِ ملک کے بعد آزاد ہندوستان کے نائب صدر اور پھر صدر منتخب کیے گئے۔ (یہ اپنے ملک کے تیسرے صدرتھے) امام الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزاد، پروفیسر فضل الرحمن غازی پوری (پرنسپل کلکتہ یونیورسٹی) عالمِ جلیل مولانا اعزاز علی دیوبندی، مولانا فضل حق خیر آبادی،[1] مولانا داود غزنوی، مولانا عبد القادر قصوری اور مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے اسماے گرامی بھی مدرسہ رحمانیہ کے کاروانِ زائرین میں شامل تھے۔
برصغیر کے بہت سے رفیع المرتبت حضرات کے علاوہ حجاز، مصر اور دیگر عرب ممالک کے اصحابِ کمال کا ورود بھی اس مدرسے میں ہوا اور انھوں نے اس کے متعلق اپنے تاثرات کا تقریری اور تحریری صورت میں اظہار فرمایا، جو اس کتاب میں مندرج ہیں ۔ عالمِ اسلام میں عربی کے نامور ادیب مولانا عبد العزیز میمنی کی آمد و رفت بھی اس مدرسے میں رہتی تھی۔
ہندوستان کے دیوبندی مسلک کے معروف عالم و مصنف مولانا سعید احمد اکبر آبادی کہا کرتے تھے کہ ہندوستان میں ایک ہی زمانے میں عربی کے تین ادیب
[1] مولانا اسعد اعظمی نے مدرسہ رحمانیہ میں تشریف لانے والوں کی فہرست میں مولانا فضل حق خیر آبادی کا نام لکھا ہے۔ (طبع اول مئو ناتھ بھنجن، صفحہ ۲۳۱) یہ مولانا کا سہو ہے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی علومِ حکمیہ میں مہارت رکھتے تھے اور بعض مسائل میں حضرت مولانا محمد اسماعیل شہید دہلوی سے ان کی بحثیں رہیں ۔ انھوں نے مدرسہ رحمانیہ کے قیام سے تقریباً ساٹھ سال قبل اگست ۱۸۶۲ء میں وفات پائی، اس لیے ان کا مدرسے میں تشریف لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے تشریف لانے والوں میں مولانا فضل حق رام پوری ہوں گے، جنھیں غلطی سے خیر آبادی لکھا گیا، ان کا شمار بھی علومِ حکمیہ کے ماہرین میں ہوتا تھا۔ وہ ذیقعدہ ۱۳۵۸ھ (جنوری ۱۹۴۰ء) میں فوت ہوئے۔ یعنی مدرسے کے قیام سے انیس سال بعد۔اس وقت مدرسہ رحمانیہ شہرت و کارکردگی کے اعتبار سے پورے جوبن پر تھا۔